غزل
غزلوں کی تشریح کے لیے غزل پر کلک کریں (غزلوں کے لنک بنانے کا کام جاری ہے)
- قلی قطب شاہ
- پیا باج پیالہ پیا جائے نا
- صبر سے معمور تھا مندر سو مج دیوانے کا
- ولی دکنی
- وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
- کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
- تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
- وہ صنم جب سوں بسا دیدہ حیران میں آ
- کوچہ یار عین کاسی ہے
- شراب شوق سیں سرشار ہیں ہم
- عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا
- سراج اورنگ آبادی
- نظیر اکبرآبادی
- میر تقی میر
- جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
- پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
- رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
- الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ ن دوا نے کام کیا
- اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
- عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
- کچھ نہ پوچھو بہک رہے ہیں ہم
- متاع دل اس عشق نے سب جلا دی
- رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
- سحر گہ عید میں دور سبو تھا
- میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
- کم فرصتی گل جو کہیں کوئی نہ جانے
- مصحفی غلام ہمدانی
- امام بخش ناسخ
- مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
- رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مہ پارہ تھا
- جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں
- خواجہ حیدر علی آتش
- توڑ کر تار نگہ کا سلسلہ جاتا رہا
- یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے
- یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
- غیرت مہر رشک ماہ ہو تم
- سن تو سہی جہاں میں ترا فسانہ کیا ہے
- تار تار پیرن میں بس گئی بوئے دوست
- تصور سے کسے کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں
- وحشی تھے بوئے گل کی طرح جہاں میں ہم
- حسرت جلوہ دیدار لیے پھرتی ہے
- خواجہ میر درد
- مرزا اسد اللہ خاں غالب
- نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
- سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
- دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
- عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
- آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
- کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
- کوئی دن گر زندگانی اور ہے
- ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
- آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
- دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے
- عالم جہاں بعرض بساط وجود تھا
- شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
- کوئی دن گر زندگانی اور ہے
- کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
- مومن خاں مومن
- اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
- غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
- صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
- وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
- الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
- نازک انداز جدھر دید جاناں ہوں گے
- نواب مرزا داغ دہلوی
- عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
- رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
- علامہ سر محمد اقبال
- ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
- گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
- کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
- جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
- نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
- فطرت کو خرد کے روبرو کر
- پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
- خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
- اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
- خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
- کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
- مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
- اکبر الہ آبادی
- الطاف حسین حالی
- ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
- اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
- شاد عظیم آبادی
- تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
- یہ دلجمعی جئے جب تک جئے جینا اسی کا ہے
- اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا
- نگہ کی برچھیاں جو سہہ سکے سینہ اسی کا ہے
- یاس یگانہ چنگیزی
- ہنوز زندگی تلخ کا مزہ نہ ملا
- ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
- فانی بدایونی
- اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
- کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
- خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
- دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
- خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
- شوق سے ناکامی کی بدولت کوچہ دل ہے چھوٹ گیا
- حسرت موہانی
- حسن بے پروا کو خود بیں و خود آرا کر دیا
- روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
- فراق گورکھپوری
- سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
- کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
- جگر مراد آبادی
- اصگر گونڈوی
- ترے جلوں کے آگے ہمت شرح بیاں رکھ دی
- آلام روزگار کو آساں بنا دیا
- مجروح سلطان پوری
- حادثے اور بھی گزرے تری الفت کے سوا
- فیض احمد فیض
- تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
- شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
- نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
- اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
- ناصر کاظمی
- خلیل الرحمن اعظمی
- راجیندر منچندا بانی
- شہر یار
- پروین شاکر