یادیں – اختر الایمان
لو وہ چاہ شب سے نکلا پچھلے پہر پیلا مہتاب
ذہن نے کھولی رکتے رکتے ماضی کی پارینہ کتاب
یادوں کے بے معنی دفتر خوابوں کے افسردہ شہاب
سب کے سب خاموش زباں سے کہتے ہیں اے خانہ خراب
گزری بات صدی یا پل ہو گزری بات ہے نقش بر آب
یہ روداد ہے اپنے سفر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
شہر تمنا کے مرکز میں لگا ہوا ہے میلا سا
کھیل کھلونوں کا ہر سو ہے اک رنگیں گل زار کھلا
وہ اک بالک جس کو گھر سے اک درہم بھی نہیں ملا
میلے کی سج دھج میں کھو کر باپ کی انگلی چھوڑ گیا
ہوش آیا تو خود کو تنہا پا کے بہت حیران ہوا
بھیڑ میں راہ ملی نہیں گھر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
وہ بالک ہے آج بھی حیراں میلہ جوں کا توں ہے لگا
حیراں ہے بازار میں چپ چپ کیا کیا بکتا ہے سودا
کہیں شرافت کہیں نجابت کہیں محبت کہیں وفا
آل اولاد کہیں بکتی ہے کہیں بزرگ اور کہیں خدا
ہم نے اس احمق کو آخر اسی تذبذب میں چھوڑا
اور نکالی راہ مفر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
ہونٹ تبسم کے عادی ہیں ورنہ روح میں زہر آگیں
گھپے ہوئے ہیں اتنے نشتر جن کی کوئی تعداد نہیں
کتنی بار ہوئی ہے ہم پر تنگ یہ پھیلی ہوئی زمیں
جس پر ناز ہے ہم کو اتنا جھکی ہے اکثر وہی جبیں
کبھی کوئی سفلہ ہے آقا کبھی کوئی ابلہ فرزیں
بیچی لاج بھی اپنے ہنر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی آباد خرابے میں
کالے کوس غم الفت کے اور میں نان شبینہ جو
کبھی چمن زاروں میں الجھا اور کبھی گندم کی بو
ناقۂ مشک تتاری بن کر لیے پھری مجھ کو ہر سو
یہی حیات صاعقہ فطرت بنی تعطل کبھی نمو
کبھی کیا رم عشق سے ایسے جیسے کوئی وحشی آہو
اور کبھی مر مر کے سحر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
کبھی غنیم جور و ستم کے ہاتھوں کھائی ایسی مات
ارض الم میں خوار ہوئے ہم بگڑے رہے برسوں حالات
اور کبھی جب دن نکلا تو بیت گئے جگ ہوئی نہ رات
ہر سو مہ وش سادہ قاتل لطف و عنایت کی سوغات
شبنم ایسی ٹھنڈی نگاہیں پھولوں کی مہکار سی بات
جوں توں یہ منزل بھی سر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
راہ نورد شوق کو رہ میں کیسے کیسے یار ملے
ابر بہاراں عکس نگاراں خال رخ دلدار ملے
کچھ بالکل مٹی کے مادھو کچھ خنجر کی دھار ملے
کچھ منجدھار میں کچھ ساحل پر کچھ دریا کے پار ملے
ہم سب سے ہر حال میں لیکن یوں ہی ہاتھ پسار ملے
صرف ان کی خوبی پہ نظر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
ساری ہے بے ربط کہانی دھندلے دھندلے ہیں اوراق
کہاں ہیں وہ سب جن سے جب تھی پل بھر کی دوری بھی شاق
کہیں کوئی ناسور نہیں گو حائل ہے برسوں کا فراق
کرم فراموشی نے دیکھو چاٹ لیے کتنے میثاق
وہ بھی ہم کو رو بیٹھے ہیں چلو ہوا قرضہ بے باق
کھلی تو آخر بات اثر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
خواب تھے اک دن اوج زمیں سے کاہکشاں کو چھو لیں گے
کھلیں گے گل رنگ شفق سے قوس قزح میں جھولیں گے
باد بہاری بن کے چلیں گے سرسوں بن کر پھولیں گے
خوشیوں کے رنگیں جھرمٹ میں رنج و محن سب بھولیں گے
داغ گل و غنچہ کے بدلے مہکی ہوئی خوشبو لیں گے
ملی خلش پر زخم جگر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
خوار ہوئے دمڑی کے پیچھے اور کبھی جھولی بھر مال
ایسے چھوڑ کے اٹھے جیسے چھوا تو کر دے گا کنگال
سیانے بن کر بات بگاڑی ٹھیک پڑی سادہ سی چال
چھانا دشت محبت کتنا آبلہ پا مجنوں کی مثال
کبھی سکندر کبھی قلندر کبھی بگولہ کبھی خیال
سوانگ رچائے اور گزر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
زیست خدا جانے ہے کیا شے بھوک تجسس اشک فرار
پھول سے بچے زہرہ جبینیں مرد مجسم باغ و بہار
کیا ہے روح ارض کو آخر اور یہ زہریلے افکار
کس مٹی سے اگتے ہیں سب جینا کیوں ہے اک بیگار
ان باتوں سے قطع نظر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی آباد خرابے میں
دور کہیں وہ کوئل کوکی رات کے سناٹے میں دور
کچی زمیں پر بکھرا ہوگا مہکا مہکا آم کا بور
بار مشقت کم کرنے کو کھلیانوں میں کام سے چور
کم سن لڑکے گاتے ہوں گے لو دیکھو وہ صبح کا نور
چاہ شب سے پھوٹ کے نکلا میں مغموم کبھی مسرور
سوچ رہا ہوں ادھر ادھر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
نیند سے اب بھی دور ہیں آنکھیں گو کہ رہیں شب بھر بے خواب
یادوں کے بے معنی دفتر خوابوں کے افسردہ شہاب
سب کے سب خاموش زباں سے کہتے ہیں اے خانہ خراب
گزری بات صدی یا پل ہو گزری بات ہے نقش بر آب
مستقبل کی سوچ، اٹھا یہ ماضی کی پارینہ کتاب
منزل ہے یہ ہوش و خبر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں