گریز – ساحر لدھیانوی
مرا جنون وفا ہے زوال آمادہ
شکست ہو گیا تیرا فسون زیبائی
ان آرزوؤں پہ چھائی ہے گرد مایوسی
جنہوں نے تیرے تبسم میں پرورش پائی
فریب شوق کے رنگیں طلسم ٹوٹ گئے
حقیقتوں نے حوادث سے پھر جلا پائی
سکون و خواب کے پردے سرکتے جاتے ہیں
دماغ و دل میں ہیں وحشت کی کار فرمائی
وہ تارے جن میں محبت کا نور تاباں تھا
وہ تارے ڈوب گئے لے کے رنگ و رعنائی
سلا گئی تھیں جنہیں تیری ملتفت نظریں
وہ درد جاگ اٹھے پھر سے لے کے انگڑائی
عجیب عالم افسردگی ہے رو بہ فروغ
نہ جب نظر کو تقاضا نہ دل تمنائی
تری نظر ترے گیسو تری جبیں ترے لب
مری اداس طبیعت ہے سب سے اکتائی
میں زندگی کے حقائق سے بھاگ آیا تھا
کہ مجھ کو خود میں چھپائے تری فسوں زائی
مگر یہاں بھی تعاقب کیا حقائق نے
یہاں بھی مل نہ سکی جنت شکیبائی
ہر ایک ہاتھ میں لے کر ہزار آئینے
حیات بند دریچوں سے بھی گزر آئی
مرے ہر ایک طرف ایک شور گونج اٹھا
اور اس میں ڈوب گئی عشرتوں کی شہنائی
کہاں تلک کرے چھپ چھپ کے نغمہ پیرائی
وہ دیکھ سامنے کے پر شکوہ ایواں سے
کسی کرائے کی لڑکی کی چیخ ٹکرائی
وہ پھر سماج نے دو پیار کرنے والوں کو
سزا کے طور پر بخشی طویل تنہائی
پھر ایک تیرہ و تاریک جھونپڑی کے تلے
سسکتے بچے پہ بیوہ کی آنکھ بھر آئی
وہ پھر بکی کسی مجبور کی جواں بیٹی
وہ پھر جھکا کسی در پر غرور برنائی
وہ پھر کسانوں کے مجمع پہ گن مشینوں سے
حقوق یافتہ طبقے نے آگ برسائی
سکوت حلقۂ زنداں سے ایک گونج اٹھی
اور اس کے ساتھ مرے ساتھیوں کی یاد آئی
نہیں نہیں مجھے یوں ملتفت نظر سے نہ دیکھ
نہیں نہیں مجھے اب تاب نغمہ پیرائی
مرا جنون وفا ہے زوال آمادہ
شکست ہو گیا تیرا فسون زیبائی