مصحفی غلام ہمدانی – غم دل کا بیان چھوڑ گئے
غم دل کا بیان چھوڑ گئے
ہم یہ اپنا نشان چھوڑ گئے
تری دہشت سے باغ میں صیاد
مرغ سب آشیان چھوڑ گئے
غم دل کا بیان چھوڑ گئے
ہم یہ اپنا نشان چھوڑ گئے
تری دہشت سے باغ میں صیاد
مرغ سب آشیان چھوڑ گئے
کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے
رنگ رخسار سے پھولوں کے اڑا جاتا ہے
شعلہ شمع میں گرمی یہ کہاں سے آئی
اس کی گرمی سے تو فانوس جلا جاتا ہے
کم فرصتیٔ گل جو کہیں کوئی نہ مانے
ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے
تھے شہر میں اے رشک پری جتنے سیانے
سب ہو گئے ہیں شور ترا سن کے دوانے
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتیٔ راز نہاں ہوں
سحر گہہ عید میں دور سبو تھا
پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا
غلط تھا آپ سے غافل گزرنا
نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
متاع دل اس عشق نے سب جلا دی
کوئی دن ہی میں خاک سی یاں اڑا دی
دلیل اس بیاباں میں دل ہی ہے اپنا
نہ خضر و بلد یاں نہ رہبر نہ ہادی
کچھ نہ پوچھو بہک رہے ہیں ہم
عشق کی مے سے چھک رہے ہیں ہم
سوکھ غم سے ہوئے ہیں کانٹا سے
پر دلوں میں کھٹک رہے ہیں ہم
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
بیکلی دل ہی کی تماشا ہے
برق میں ایسے اضطراب کہاں
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو آتا ہے جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
Read More