نظم

باز آمد – اخترالایمان

Loading

تتلیاں ناچتی ہیں

پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں

جیسے اک بات ہے جو

کان میں کہنی ہے خاموشی سے

اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات

دھوپ میں تیزی نہیں

ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے

دست شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا

اور مرے شانوں کو اس طرح ہلا جاتا ہے

جیسے میں نیند میں ہوں

عورتیں چرخے لیے بیٹھی ہیں

کچھ کپاس اوٹتی ہیں

کچھ سلائی کے کسی کام میں مصروف ہیں یوں

جیسے یہ کام ہے دراصل ہر اک شے کی اساس

ایک سے ایک چہل کرتی ہے

کوئی کہتی ہے مری چوڑیاں کھنکیں تو کھنکھاری مری ساس

کوئی کہتی ہے بھری چاندنی آتی نہیں راس

رات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر

بات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر

لذت وصل ہے آزار، کوئی کہتی ہے

میں تو بن جاتی ہوں بیمار، کوئی کہتی ہے

میں بھی گھس آتا ہوں اس شیش محل میں دیکھو

سب ہنسی روک کے کہتی ہیں نکالو اس کو

اک پرندہ کسی اک پیڑ کی ٹہنی پہ چہکتا ہے کہیں

ایک گاتا ہوا یوں جاتا ہے دھرتی سے فلک کی جانب

پوری قوت سے کوئی گیند اچھالے جیسے

اک پھدکتا ہے سر شاخ پہ جس طرح کوئی

آمد فصل بہاری کی خوشی میں ناچے

گوندنی بوجھ سے اپنے ہی جھکی پڑتی ہے

نازنیں جیسے ہے کوئی یہ بھری محفل میں

اور کل ہاتھ ہوئے ہیں پیلے

کوئلیں کوکتی ہیں

جامنیں پکی ہیں، آموں پہ بہار آئی ہے

ارغنوں بجتا ہے یکجائی کا

نیم کے پیڑوں میں جھولے ہیں جدھر دیکھو ادھر

ساونی گاتی ہیں سب لڑکیاں آواز ملا کر ہر سو

اور اس آواز سے گونج اٹھی ہے بستی ساری

میں کبھی ایک کبھی دوسرے جھولے کے قریں جاتا ہوں

ایک ہی کم ہے، وہی چہرہ نہیں

آخرش پوچھ ہی لیتا ہوں کسی سے بڑھ کر

کیوں حبیبہ نہیں آئی اب تک؟

کھلکھلا پڑتی ہیں سب لڑکیاں سن کر یہ نام

لو یہ سپنے میں ہیں، اک کہتی ہے

باؤلی سپنا نہیں، شہر سے آئے ہیں ابھی

دوسری ٹوکتی ہے

بات سے بات نکل چلتی ہے

ٹھاٹ کی آئی تھی بارات، چنبیلی نے کہا

بینڈ باجا بھی تھا، دیپا بولی

اور دلہن پہ ہوا کتنا بکھیر

کچھ نہ کچھ کہتی رہیں سب ہی مگر میں نے صرف

اتنا پوچھا وہ ندی بہتی ہے اب بھی، کہ نہیں

جس سے وابستہ ہیں ہم اور یہ بستی ساری؟

کیوں نہیں بہتی، چنبیلی نے کہا

اور وہ برگد کا گھنا پیڑ کنارے اس کے؟

وہ بھی قائم ہے ابھی تک یونہی

وعدہ کر کے جو حبیبہؔ نہیں آتی تھی کبھی

آنکھیں دھوتا تھا ندی میں جاکر

اور برگد کی گھنی چھاؤں میں سو جاتا تھا

ماہ و سال آتے، چلے جاتے ہیں

فصل پک جاتی ہے، کٹ جاتی ہے

کوئی روتا نہیں اس موقع پر

حلقہ در حلقہ نہ آہن کو تپا کر ڈھالیں

کوئی زنجیر نہ ہو!

زیست در زیست کا یہ سلسلہ باقی نہ رہے!

بھیڑ ہے بچوں کی چھوٹی سی گلی میں دیکھو

ایک نے گیند جو پھینکی تو لگی آ کے مجھے

میں نے جا پکڑا اسے، دیکھی ہوئی صورت تھی

کس کا ہے میں نے کسی سے پوچھا؟

یہ حبیبہ کا ہے، رمضانی قصائی بولا

بھولی صورت پہ ہنسی آ گئی اس کی مجھ کو

وہ بھی ہنسنے لگا، ہم دونوں یونہی ہنستے رہے!

دیر تک ہنستے رہے!

تتلیاں ناچتی ہیں

پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں

جیسے اک بات ہے جو

کان میں کہنی ہے خاموشی سے

اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات!

Our Visitor

0 0 9 8 7 8
Users Today : 0
Users Yesterday : 10
Users Last 7 days : 93
Users Last 30 days : 425
Users This Month : 0
Users This Year : 4624
Total Users : 9878
Views Today :
Views Yesterday : 21
Views Last 7 days : 208
Views Last 30 days : 782
Views This Month :
Views This Year : 8660
Total views : 24665
Who's Online : 0
Your IP Address : 3.145.12.34
Server Time : 2024-11-01