مناجات بیوہ – الطاف حسین حالی
(۱)
اے سب سے اول اور آخر
جہاں تہاں، حاضر اور ناظر
اے سب داناؤں سے دانا
سارے تواناؤں سے توانا
اے بالا، ہر بالاتر سے
چاند سے سورج سے امبر سے
اے سمجھے بوجھے بن سوجھے
جانے پہچانے بن بوجھے
سب سے انوکھے سب سے نرالے
آنکھ سے اوجھل دل کے اجالے
اے اندھوں کی آنکھ کے تارے
اے لنگڑے لولوں کے سہارے
ناتیوں سے چھوٹوں کے ناتی
ساتھیوں سے بچھڑوں کے ساتھی
ناؤ جہاں کی کھینے والے
دکھ میں تسلی دینے والے
جب اب تب تجھ سا نہیں کوئی
تجھ سے ہیں سب تجھ سا نہیں کوئی
جوت ہے تیری جل اور تھل میں
باس ہے تیری پھول اور پھل میں
ہر دل میں ہے تیرا بسیرا
تو پاس اور گھر دور ہے تیرا
راہ تری دشوار اور سکڑی
نام ترا رہ گیر کی لکڑی
تو ہے ٹھکانا مسکینوں کا
تو ہے سہارا غمگینوں کا
تو ہے اکیلوں کا رکھوالا
تو ہے اندھیرے گھر کا اجالا
لاگو اچھے اور برے کا
خواہاں کھوٹے اور کھرے کا
بید نراسے بیماروں کا
گاہک مندے بازاروں کا
سوچ میں دل بہلانے والے
بپتا میں یاد آنے والے
(۲)
اے بے وارث گھروں کے وارث
بے بازو بے پروں کے وارث
بے آسوں کی آس ہے تو ہی
جاگتے سوتے پاس ہے تو ہی
بس والے ہیں یا بے بس ہیں
تو نہیں جن کا وہ بے کس ہیں
ساتھی جن کا دھیان ہے تیرا
دسرایت کی وہاں نہیں پروا
دل میں ہے جن کے تیری بڑائی
گنتے ہیں وہ پربت کو رائی
بیکس کا غم خوار ہے تو ہی
بری بنی کا یار ہے تو ہی
دکھیا دکھی یتیم اور بیوہ
تیرے ہی ہاتھ ان سب کا ہے کھیوا
تو ہی مرض دے تو ہی دوا دے
تو ہی دوا دارو میں شفا دے
تو ہی پلائے زہر کے پیالے
تو ہی پھر امرت زہر میں ڈالے
تو ہی دلوں میں آگ لگائے
تو ہی دلوں کی لگی بجھائے
چمکارے چمکار کے مارے
مارے مار کے پھر چمکارے
پیار کا تیرے پوچھنا کیا ہے
مار میں بھی اک تیری مزا ہے
(۳)
اے رحمت اور ہیبت والے
شفقت اور دباغت والے
اے اٹکل اور دھیان سے باہر
جان سے اور پہچان سے باہر
عقل سے کوئی پا نہیں سکتا
بھید ترے حکموں میں ہیں کیا کیا
ایک کو تو نے شاد کیا ہے
ایک کے دل کو داغ دیا ہے
اس سے نہ تیرا پیار کچھ ایسا
اس سے نہ تو بیزار کچھ ایسا
ہر دم تیری آن نئی ہے
جب دیکھو تب شان نئی ہے
یہاں پچھوا ہے وہاں پروا ہے
گھر گھر تیرا حکم نیا ہے
پھول کہیں کملائے ہوئے ہیں
اور کہیں پھل آئے ہوئے ہیں
کھیتی ایک کی ہے لہراتی
ایک کا ہر دم خون سکھاتی
ایک پڑے ہیں دھن کو ڈبوئے
ایک ہیں گھوڑے بیچ کے سوئے
ایک نے جب سے ہوش سنبھالا
رنج سے اس کو پڑا نہ پالا
ایک نے اس جنجال میں آ کر
چین نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر
مینہ کہیں دولت کا ہے برستا
ہے کوئی پانی تک کو ترستا
ایک کو مرنے تک نہیں دیتے
ایک اکتا گیا لیتے لیتے
حال غرض دنیا کا یہی ہے
غم پہلے اور بعد خوشی ہے
رنج کا ہے دنیا کے گلا کیا
تحفہ یہی لے دے کے ہے یاں کا
یہاں نہیں بنتی رنج سہے بن
رنج نہیں سب ایک سے لیکن
ایک سے یہاں رنج ایک ہے بالا
ایک سے ہے درد ایک نرالا
گھاؤ ہے گو ناسور کی صورت
پر اسے کیا ناسور سے نسبت
تپ وہی دق کی شکل ہے لیکن
دق نہیں رہتی جان لیے بن
دق ہو وہ یا ناسور ہو کچھ ہو
دے نہ جو اب امید کسی کو
روز کا غم کیوں کر سہے کوئی
آس نہ جب باقی رہے کوئی
تو ہی کر انصاف اے مرے مولا
کون ہے جو بے آس ہے جیتا
گو کہ بہت بندے ہیں پر ارماں
کم ہیں مگر مایوس ہیں جو یاں
خواہ دکھی ہے خواہ سکھی ہے
جو ہے اک امید اس کو بندھی ہے
کھیتیاں جن کی کھڑی ہیں سوکھی
آس وہ باندھے بیٹھے ہیں مینہ کی
گھٹا جن کی اساڑی میں ہے
ساونی کی امید نہیں ہے
ڈوب چکی ہے ان کی اگیتی
دیتی ہے ڈھارس ان کو پچھیتی
ایک ہے اس امید پہ جیتا
اب ہوئی بیٹی اب ہوا بیٹا
ایک کو جو اولاد ملی ہے
اس کو امنگ شادیوں کی ہے
رنج ہے یا قسمت میں خوشی ہے
کچھ ہے مگر اک آس بندھی ہے
غم نہیں ان کو غمگیں ہیں
جو دل ناامید نہیں ہیں
کال میں کچھ سختی نہیں ایسی
کال میں ہے جب آس سمیں کی
سہل ہے موجوں سے چھٹکارا
جب کہ نظر آتا ہے کنارا
پر نہیں اٹھ سکتی وہ مصیبت
آئے گی جس کے بعد نہ راحت
شاد ہو اس رہ گیر کا کیا دل؟
مر کے کٹے گی جس کی منزل
ان اجڑوں کو کل پڑے کیوں کر
گھر نہ بسے گا جن کا جنم بھر
ان بچھڑوں کا کیا ہے ٹھکانا؟
جن کو نہ ملنے دے گا زمانہ
اب یہ بلا ٹلتی نہیں ٹالی
مجھ پہ ہے جو تقدیر نے ڈالی
آئیں بہت دنیا میں بہاریں
عیش کی گھر گھر پڑیں پکاریں
پڑے بہت باغوں میں جھولے
ڈھاک بہت جنگل میں پھولے
گئیں اور آئیں چاندنی راتیں
برسیں کھلیں بہت برساتیں
پر نہ کھلی ہرگز نہ کھلے گی
وہ جو کلی مرجھائی تھی دل کی
آس ہی کا بس نام ہے دنیا
جب نہ رہی یہی تو رہا کیا؟
ایسے بدیسی کا نہیں غم کچھ
جس کو نہ ہو ملنے کی قسم کچھ
رونا ان بن باسیوں کا ہے
دیس نکالا جن کو ملا ہے
حکم سے تیرے پر نہیں چارہ
کڑوی میٹھی سب ہے گوارا
زور ہے کیا پتے کا ہوا پر
چاہے جدھر لے جائے اڑا کر
تنکا اک اور سات سمندر
جائے کہاں موجوں سے نکل کر
قسمت ہی میں جب تھی جدائی
پھر ٹلتی کس طرح یہ آئی؟
آج کی بگڑی ہو تو بنے بھی
ازل کی بگڑی خاک بنے گی
تو جو چاہے وہ نہیں ٹلتا
بندے کا یاں بس نہیں چلتا
مارے اور نہ دے تو رونے
تھپکے اور نہ دے تو سونے
ٹھہرے بن آتی ہے نہ بھاگے
تیری زبردستی کے آگے
تجھ سے کہیں گر بھاگنا چاہیں
بند ہیں چاروں کھونٹ کی راہیں
تو مارے اور خواہ نوازے
پڑی ہوئی ہوں میں تیرے دروازے
تجھ کو اپنا جانتی ہوں میں
تجھ سے نہیں تو کس سے کہوں میں
ماں ہی سدا بچہ کو مارے
اور بچہ ماں ماں ہی پکارے
(۴)
اے مرے زور اور قدرت والے
حکمت اور حکومت والے
میں لونڈی تیری دکھیارے
دروازے کی تیری بھکاری
موت کی خواہاں جان کی دشمن
جان اپنی ہے آپ اجیرن
اپنے پرائے کی دھتکاری
میکے اور سسرال پہ بھاری
سہہ کے بہت آزار چلی ہوں
دنیا سے بیزار چلی ہوں
دل پر میرے داغ ہیں جتنے
منہ میں بول نہیں ہیں اتنے
دکھ دل کا کچھ کہہ نہیں سکتی
اس کے سوا کچھ کہہ نہیں سکتی
تجھ پہ ہے روشن سب دکھ دل کا
تجھ سے حقیقت اپنی کہوں کیا
بیاہ کے دم پائی تھی نہ لینے
لینے کے یاں پڑ گئے دینے
خوشی میں بھی دکھ ساتھ نہ آیا
غم کے سوا کچھ ہات نہ آیا
ایک خوشی نے غم یہ دکھائے
ایک ہنسی نے گل ہی کھلائے
کیسا تھا یہ بیاہ نناواں
جوں ہی پڑا اس کا پرچھاواں
چین سے رہنے دیا نہ جی کو
کر دیا ملیامیٹ خوشی کو
رو نہیں سکتی تنگ ہوں یاں تک
اور روؤں تو روؤں کہاں تک
ہنس ہنس دل بہلاؤں کیوں کر
اوسوں پیاس بجھاؤں کیوں کر
ایک کا کچھ جینا نہیں ہوتا
ایک نہ ہنستا بھلا نہ روتا
لیٹے گر سونے کے بہانے
پائنتی کل ہے اور نہ سرہانے
جاگیے تو بھی بن نہیں پڑتی
جاگنے کی آخر کوئی حد بھی
اب کل ہم کو پڑے گی مر کر
گور ہے سونی سیج سے بہتر
بات سے نفرت کام سے وحشت
ٹوٹی آس اور بجھی طبیعت
آبادی جنگل کا نمونہ
دنیا سونی اور گھر سونا
دن ہے بھیانک اور رات ڈرانی
یوں گزری ساری یہ جوانی
بہنیں اور بہنیلیاں میری
ساتھ کی جو تھیں کھیلیاں میری
مل نہ سکیں جی کھول کے مجھ سے
خوش نہ ہوئیں ہنس بول کے مجھ سے
جب آئیں رو دھو کے گئیں وہ
جب گئیں بے کل ہو کے گئیں وہ
کوئی نہیں دل کا بہلاوا
آ نہیں چکتا میرا بلاوا
آٹھ پہر کا ہے یہ جلاپا
کاٹوں گی کس طرح رنڈاپا
تھک گئی دکھ سہتے سہتے
تھم گئے آنسو بہتے بہتے
آگ کھلی دل کی نہ کسی پر
گھل گئی جان اندر ہی اندر
دیکھ کے چپ جانا نہ کسی نے
جان کو پھونکا دل کی لگی نے
دبی تھی بھوبھل میں چنگاری
لی نہ کسی نے خبر ہماری
قوم میں وہ خوشیاں بیاہوں کی
شہر میں وہ دھوئیں ساہوں کی
تہواروں کا آئے دن آنا
اور سب کا تہوار منانا
وہ چیت اور پھاگن کی ہوائیں
وہ ساون بھادوں کی گھٹائیں
وہ گرمی کی چاندنی راتیں
وہ ارمان بھری برساتیں
کس سے کہوں کس طور سے کاٹیں
خیر کٹیں جس طور سے کاٹیں
چاؤ کے اور خوشیوں کے سمے سب
آتے ہیں خوش کل جان کو ہو جب
رنج میں ہیں سامان خوشی کے
اور جلانے والے ہی کے
گھر برکھا اور پیا بدیسی
آئیو برکھا کہیں نہ ایسی
دن یہ جوانی کے کٹے ایسے
باغ میں پنچھی قید ہو جیسے
رت گئی ساری سر ٹکراتے
اڑ نہ سکے پر ہوتے سارے
کسی نے ہوگی کچھ کل پائی
مجھے تو شادی راس نہ آئی
آس بندھی لیکن نہ ملا کچھ
پھول آیا اور پھل نہ لگا کچھ
رہ گیا دے کر چاند دکھائی
چاند ہوا پر عید نہ آئی
پھل کی خاطر برچھی کھائی
پھل نہ ملا اور جان گنوائی
ریت میں ذرے دیکھ چمکتے
دوڑ پڑی میں جھیل سمجھ کے
چاروں کھونٹ نظر دوڑائی
پر پانی کی بوند نہ پائی