غزل

غزل – شہر یار

Loading

سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا

کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا

برہنہ جسم بگولوں کا قتل ہوتا رہا

خیال بھی نہیں آیا کسی کو رونے کا

صلہ کوئی نہیں پرچھائیوں کی پوجا کا

مآل کچھ نہیں خوابوں کی فصل بونے کا

بچھڑ کے تجھ سے مجھے یہ گمان ہوتا ہے

کہ میری آنکھیں ہیں پتھر کی جسم سونے کا

ہجوم دیکھتا ہوں جب تو کانپ اٹھتا ہوں

اگرچہ خوف نہیں اب کسی کے کھونے کا

گئے تھے لوگ تو دیوار قہقہہ کی طرف

مگر یہ شور مسلسل ہے کیسا رونے کا

مرے وجود پہ نفرت کی گرد جمتی رہی

ملا نہ وقت اسے آنسوؤں سے دھونے کا

Our Visitor

0 0 9 8 7 8
Users Today : 0
Users Yesterday : 10
Users Last 7 days : 93
Users Last 30 days : 425
Users This Month : 0
Users This Year : 4624
Total Users : 9878
Views Today :
Views Yesterday : 21
Views Last 7 days : 208
Views Last 30 days : 782
Views This Month :
Views This Year : 8660
Total views : 24665
Who's Online : 0
Your IP Address : 3.144.93.9
Server Time : 2024-11-01