غزل – شہر یار
سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
برہنہ جسم بگولوں کا قتل ہوتا رہا
خیال بھی نہیں آیا کسی کو رونے کا
صلہ کوئی نہیں پرچھائیوں کی پوجا کا
مآل کچھ نہیں خوابوں کی فصل بونے کا
بچھڑ کے تجھ سے مجھے یہ گمان ہوتا ہے
کہ میری آنکھیں ہیں پتھر کی جسم سونے کا
ہجوم دیکھتا ہوں جب تو کانپ اٹھتا ہوں
اگرچہ خوف نہیں اب کسی کے کھونے کا
گئے تھے لوگ تو دیوار قہقہہ کی طرف
مگر یہ شور مسلسل ہے کیسا رونے کا
مرے وجود پہ نفرت کی گرد جمتی رہی
ملا نہ وقت اسے آنسوؤں سے دھونے کا