امام بخش ناسخ – رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مہ پارہ تھا
رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مہ پارہ تھا
غیرت مہتاب اپنا دامن نظارہ تھا
بن گئے گرداب سیل اشک جائے گرد باد
ابر تر کی طرح میں جس دشت میں آوارہ تھا
تو نے آنکھیں پھیر لیں یاں کام آخر ہو گیا
طائر جاں پائے بند رشتۂ نظارہ تھا
شب ترے پرتو سے لبریز لطافت تھا چمن
ہر گل شبو سے جاری نور کا فوارہ تھا
مجھ کو دم لینے کی بھی فرصت نہ دنیا میں ملی
روز مولد شادیانہ کوچ کا نقارا تھا
خرمی ہوتی ہے بے دردوں کو سیر باغ میں
ہم نے جس گل پر نظر کی اک گل صد پارہ تھا
خواب میں بھی یار تک ممکن نہ تھا دخل رقیب
جن دنوں اپنا خیال اخبار کا ہرکارہ تھا
شب نظر کی میں نے فرقت میں جو سوئے آسماں
اژدہا تھی کہکشاں عقرب ہر اک سیارہ تھا
اے اجل دی تو نے بار جسم سے آ کر نجات
کب سے میری پیٹھ پر یہ خاک کا پشتارہ تھا
خوف سب جاتا رہا دل سے عذاب ہجر کا
نقد جاں دینا گناہ عشق کا کفارہ تھا
کہتے ہیں مارا گیا وہ جرم تیغ ناز سے
کوچۂ قاتل میں ناسخؔ نام جو بیچارہ گیا