غزل

امام بخش ناسخ – رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مہ پارہ تھا

Loading

رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مہ پارہ تھا

غیرت مہتاب اپنا دامن نظارہ تھا

بن گئے گرداب سیل اشک جائے گرد باد

ابر تر کی طرح میں جس دشت میں آوارہ تھا

تو نے آنکھیں پھیر لیں یاں کام آخر ہو گیا

طائر جاں پائے بند رشتۂ نظارہ تھا

شب ترے پرتو سے لبریز لطافت تھا چمن

ہر گل شبو سے جاری نور کا فوارہ تھا

مجھ کو دم لینے کی بھی فرصت نہ دنیا میں ملی

روز مولد شادیانہ کوچ کا نقارا تھا

خرمی ہوتی ہے بے دردوں کو سیر باغ میں

ہم نے جس گل پر نظر کی اک گل صد پارہ تھا

خواب میں بھی یار تک ممکن نہ تھا دخل‌‌ رقیب

جن دنوں اپنا خیال اخبار کا ہرکارہ تھا

شب نظر کی میں نے فرقت میں جو سوئے آسماں

اژدہا تھی کہکشاں عقرب ہر اک سیارہ تھا

اے اجل دی تو نے بار‌ جسم سے آ کر نجات

کب سے میری پیٹھ پر یہ خاک کا پشتارہ تھا

خوف سب جاتا رہا دل سے عذاب ہجر کا

نقد جاں دینا گناہ عشق کا کفارہ تھا

کہتے ہیں مارا گیا وہ جرم تیغ ناز سے

کوچۂ قاتل میں ناسخؔ نام جو بیچارہ گیا

Our Visitor

0 1 3 9 6 0
Users Today : 5
Users Yesterday : 23
Users Last 7 days : 142
Users Last 30 days : 694
Users This Month : 83
Users This Year : 2651
Total Users : 13960
Views Today : 6
Views Yesterday : 55
Views Last 7 days : 375
Views Last 30 days : 2087
Views This Month : 181
Views This Year : 5412
Total views : 33036
Who's Online : 0
Your IP Address : 216.73.216.213
Server Time : 2025-06-06
error: Content is protected !!