غزل

خواجہ میر درد – اس نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں

Loading

ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں

پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں

آ جائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بتنگ

جیتا رہے گا کب تلک اے خضر مر کہیں

پھرتی رہی تڑپتی ہی عالم میں جا بہ جا

دیکھا نہ میری آہ نے روئے اثر کہیں

مدت تلک جہان میں ہنستے پھرا کیے

جی میں ہے خوب روئیے اب بیٹھ کر کہیں

یوں تو نظر پڑے ہیں دل افگار اور بھی

دل ریش کوئی آپ سا دیکھا نہ پر کہیں

ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے

پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں

پھرتے تو ہو بنائے سج اپنی جدھر تدھر

لگ جاوے دیکھیو نہ کسو کی نظر کہیں

پوچھا میں درد سے کہ بتا تو سہی مجھے

اے خانماں خراب ہے تیرے بھی گھر کہیں

کہنے لگا مکان معین فقیر کو

لازم ہے کیا کہ ایک ہی جاگہ ہو ہر کہیں

درویش ہر کجا کہ شب آمد سرائے اوست

تو نے سنا نہیں ہے یہ مصرع مگر کہیں

Our Visitor

0 1 3 9 6 0
Users Today : 5
Users Yesterday : 23
Users Last 7 days : 142
Users Last 30 days : 694
Users This Month : 83
Users This Year : 2651
Total Users : 13960
Views Today : 6
Views Yesterday : 55
Views Last 7 days : 375
Views Last 30 days : 2087
Views This Month : 181
Views This Year : 5412
Total views : 33036
Who's Online : 0
Your IP Address : 216.73.216.243
Server Time : 2025-06-06
error: Content is protected !!