حیدر علی آتش – یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالع بے دار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگ در یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادیٔ دولت دیدار نے سونے نہ دیا
ایک شب بلبل بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گل میں کبھی خار نے سونے نا دیا
رات بھر کی دل بیتاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
سچ ہے غم خواریٔ بیمار عذاب جاں ہے
تا دم مرگ دل زار نے سونے نہ دیا
تکیہ تک پہلو میں اس گل نے نہ رکھا آتشؔ
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا