نظم

شکست زنداں کا خواب – جوش ملیح آبادی

Loading

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں

اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں

دیواروں کے نیچے آ آ کر یوں جمع ہوئے ہیں زندانی

سینوں میں تلاطم بجلی کا آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں

بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں

تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں

آنکھوں میں گدا کی سرخی ہے بے نور ہے چہرہ سلطاں کا

تخریب نے پرچم کھولا ہے سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں

کیا ان کو خبر تھی زیر و زبر رکھتے تھے جو روح ملت کو

ابلیں گے زمیں سے مار سیہ برسیں گی فلک سے شمشیریں

کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے

اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں

کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے

اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں

سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے

اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

Our Visitor

0 1 2 9 3 8
Users Today : 7
Users Yesterday : 20
Users Last 7 days : 139
Users Last 30 days : 446
Users This Month : 302
Users This Year : 1629
Total Users : 12938
Views Today : 9
Views Yesterday : 66
Views Last 7 days : 256
Views Last 30 days : 760
Views This Month : 510
Views This Year : 2709
Total views : 30333
Who's Online : 0
Your IP Address : 13.59.182.74
Server Time : 2025-04-18
error: Content is protected !!