مرزا غالب – نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے
پیش روزن پس دیوار لیے پھرتی ہے
اس مشقت سے اسے خاک نہ ہوگا حاصل
جان عبث جسم کی بیکار لیے پھرتی ہے
وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم
نکلے تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم
ساکن ہیں جوش اشک سے آب رواں میں ہم
رہتے ہیں مثل مردم آبی جہاں میں ہم
تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں
رہی ہے ایک تصویر خیالی روبرو برسوں
ہوا مہمان آ کر رات بھر وہ شمع رو برسوں
رہا روشن مرے گھر کا چراغ آرزو برسوں
تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست
مثل تصویر نہالی میں ہوں ہم پہلوئے دوست
چہرۂ رنگیں کوئی دیوان رنگیں ہے مگر
حسن مطلع ہیں مسیں مطلع ہے صاف ابروئے دوست
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
کیا کیا الجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا
غیرت مہر رشک ماہ ہو تم
خوب صورت ہو بادشاہ ہو تم
جس نے دیکھا تمہیں وہ مر ہی گیا
حسن سے تیغ بے پناہ ہو تم