نظم

مس سیمیں بدن – اکبر الہ آبادی

Loading

ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد

اس خطا پر سن رہا ہوں طعنہ ہائے دل خراش

کوئی کہتا ہے کہ بس اس نے بگاڑی نسل قوم

کوئی کہتا ہے کہ یہ ہے بد خصال و بد معاش

دل میں کچھ انصاف کرتا ہی نہیں کوئی بزرگ

ہو کے اب مجبور خود اس راز کو کرتا ہوں فاش

ہوتی تھی تاکید لندن جاؤ انگریزی پڑھو

قوم انگلش سے ملو سیکھو وہی وضع تراش

جگمگاتے ہوٹلوں کا جا کے نظارہ کرو

سوپ و کری کے مزے لو چھوڑ کر یخنی و آش

لیڈیوں سے مل کے دیکھو ان کے انداز و طریق

ہال میں ناچو کلب میں جاکے کھیلو ان سے تاش

بادۂ تہذیب یورپ کے چڑھاؤ خم کے خم

ایشیا کے شیشۂ تقویٰ کو کر دو پاش پاش

جب عمل اس پر کیا پریوں کا سایہ ہو گیا

جس سے تھا دل کی حرارت کو سراسر انتعاش

سامنے تھیں لیڈیاں زہرہ وش و جادو نظر

یاں جوانی کی امنگ اور ان کو عاشق کی تلاش

اس کی چتون سحر آگیں اس کی باتیں دل ربا

چال اس کی فتنہ خیز اس کی نگاہیں برق پاش

وہ فروغ آتش رخ جس کے آگے آفتاب

اس طرح جیسے کہ پیش شمع پروانے کی لاش

جب یہ صورت تھی تو ممکن تھا کہ اک برق بلا

دست سیمیں کو بڑھاتی اور میں کہتا دور باش؟

دونوں جانب تھا رگوں میں جوش خون فتنہ زا

دل ہی تھا آخر نہیں تھی برف کی یہ کوئی قاش

بار بار آتا ہے اکبرؔ میرے دل میں یہ خیال

حضرت سید سے جاکر عرض کرتا کوئی کاش

‘درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای

‘باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش’

Our Visitor

0 1 2 7 9 9
Users Today : 12
Users Yesterday : 16
Users Last 7 days : 137
Users Last 30 days : 437
Users This Month : 163
Users This Year : 1490
Total Users : 12799
Views Today : 19
Views Yesterday : 25
Views Last 7 days : 212
Views Last 30 days : 701
Views This Month : 254
Views This Year : 2453
Total views : 30077
Who's Online : 0
Your IP Address : 3.139.64.23
Server Time : 2025-04-10
error: Content is protected !!