غزل

غزل – میر تقی میر

Loading

کچھ نہ پوچھو بہک رہے ہیں ہم

عشق کی مے سے چھک رہے ہیں ہم

سوکھ غم سے ہوئے ہیں کانٹا سے

پر دلوں میں کھٹک رہے ہیں ہم

وقفۂ مرگ اب ضروری ہے

عمر طے کرتے تھک رہے ہیں ہم

کیونکے گرد علاقہ بیٹھ سکے

دامن دل جھٹک رہے ہیں ہم

کون پہنچے ہے بات کی تہ کو

ایک مدت سے بک رہے ہیں ہم

ان نے دینے کہا تھا بوسۂ لب

اس سخن پر اٹک رہے ہیں ہم

نقش پا سی رہی ہیں کھل آنکھیں

کس کی یوں راہ تک رہے ہیں ہم

دست دے گی کب اس کی پابوسی

دیر سے سر پٹک رہے ہیں ہم

بے ڈھب اس پاس ایک شب تھے گئے

سو کئی دن سرک رہے ہیں ہم

خام دستی نے ہائے داغ کیا

پوچھتے کیا ہو پک رہے ہیں ہم

میرؔ شاید لیں اس کی زلف سے کام

برسوں سے تو لٹک رہے ہیں ہم

Our Visitor

0 1 2 7 9 9
Users Today : 0
Users Yesterday : 12
Users Last 7 days : 137
Users Last 30 days : 437
Users This Month : 163
Users This Year : 1490
Total Users : 12799
Views Today :
Views Yesterday : 19
Views Last 7 days : 212
Views Last 30 days : 701
Views This Month : 254
Views This Year : 2453
Total views : 30077
Who's Online : 0
Your IP Address : 13.59.110.86
Server Time : 2025-04-11
error: Content is protected !!