سمندر کا بلاوا – میرا جی
یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مرے
دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا
مرے پیارے بچے مجھے تم سے کتنی محبت ہے دیکھو اگر
یوں کیا تو
برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہوگا خدایا خدایا
کبھی ایک سسکی کبھی اک تبسم کبھی صرف تیوری
مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں
انہی سے حیات دو روزہ ابد سے ملی ہے
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دئیے جا رہی ہے
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں
یہ اک گلستاں ہے ہوا لہلہاتی ہے کلیاں چٹکتی ہیں
غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں کھل کھل کے مرجھا کے
گرتے ہیں اک فرش مخمل بناتے ہیں جس پر
مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں
کہ جیسے گلستاں ہی اک آئینہ ہے
اسی آئینے سے ہر اک شکل نکھری سنور کر مٹی اور مٹ ہی گئی پھر نہ ابھری
یہ پربت ہے خاموش ساکن
کبھی کوئی چشمہ ابلتے ہوئے پوچھتا ہے کہ اس کی چٹانوں کے اس پار کیا ہے
مگر مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے دامن میں وادی ہے وادی میں ندی
ہے ندی میں بہتی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ہے
اسی آئینے میں ہر اک شکل نکھری مگر ایک پل میں جو مٹنے لگی ہے تو
پھر نہ ابھری
یہ صحرا ہے پھیلا ہوا خشک بے برگ صحرا
بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکس مجسم بنے ہیں
مگر میں تو دور ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں
نہ اب کوئی صحرا نہ پربت نہ کوئی گلستاں
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مرے دل پہ
گہری تھکن چھا رہی ہے
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا
تو پھر یہ ندا آئینہ ہے فقط میں تھکا ہوں
نہ صحرا نہ پربت نہ کوئی گلستاں فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی سمندر میں جا کر ملے گی