ایک لڑکا – اختر الایمان
دیار شرق کی آبادیوں کے اونچے ٹیلوں پر
کبھی آموں کے باغوں میں کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر
کبھی جھیلوں کے پانی میں کبھی بستی کی گلیوں میں
کبھی کچھ نیم عریاں کم سنوں کی رنگ رلیوں میں
سحر دم جھٹپٹے کے وقت راتوں کے اندھیرے میں
کبھی میلوں میں ناٹک ٹولیوں میں ان کے ڈیرے میں
تعاقب میں کبھی گم تتلیوں کے سونی راہوں میں
کبھی ننھے پرندوں کی نہفتہ خواب گاہوں میں
برہنہ پاؤں جلتی ریت یخ بستہ ہواؤں میں
گریزاں بستیوں سے مدرسوں سے خانقاہوں میں
کبھی ہم سن حسینوں میں بہت خوش کام و دل رفتہ
کبھی پیچاں بگولہ ساں کبھی جیوں چشم خوں بستہ
ہوا میں تیرتا خوابوں میں بادل کی طرح اڑتا
پرندوں کی طرح شاخوں میں چھپ کر جھولتا مڑتا
مجھے اک لڑکا آوارہ منش آزاد سیلانی
مجھے اک لڑکا جیسے تند چشموں کا رواں پانی
نظر آتا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ بلائے جاں
مرا ہم زاد ہے ہر گام پر ہر موڑ پر جولاں
اسے ہم راہ پاتا ہوں یہ سائے کی طرح میرا
تعاقب کر رہا ہے جیسے میں مفرور ملزم ہوں
یہ مجھ سے پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو