ہمدردی – علامہ اقبال
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا
اتفاقاً ایک پودا اور گھاس
باغ میں دونوں کھڑے ہیں پاس پاس
گھاس کہتی ہے کہ اے میرے رفیق
کیا انوکھا اس جہاں کا ہے طریق
وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا
گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اک سنسناہٹ ہوئی
آنکھوں کا ہے تارا بھارت
دل کا اپنے سہارا بھارت
نیارا سب سے ہمارا بھارت
بھارت پیارا بھارت پیارا
اک دن جو بہر فاتحہ اک بنتِ مہر و ماہ
پہنچی نظر جھکائے ہوئے سوئے خانقاہ
زُہاد نے اٹھائی جھجکتے ہوئے نگاہ
ہونٹوں میں دب کے ٹوٹ گئی ضرب لا اِلہ
برپا ضمیر زہد میں کہرام ہو گیا
ایماں، دلوں میں لرزہ بہ اندام ہو گیا
ہوا خیمہ زن کاروان بہار
ارم بن گیا دامن کوہسار
گل و نرگس و سوسن و نسترن
شہید ازل لالہ خونیں کفن
سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز و شب ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات
جبرئیل
ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو
ابلیس
سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو
جبرئیل
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں!
حسن ازل کی ہے نمود چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں!
سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب!
کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں!