مصحفی غلام ہمدانی – غم دل کا بیان چھوڑ گئے
غم دل کا بیان چھوڑ گئے
ہم یہ اپنا نشان چھوڑ گئے
تری دہشت سے باغ میں صیاد
مرغ سب آشیان چھوڑ گئے
غم دل کا بیان چھوڑ گئے
ہم یہ اپنا نشان چھوڑ گئے
تری دہشت سے باغ میں صیاد
مرغ سب آشیان چھوڑ گئے
کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے
رنگ رخسار سے پھولوں کے اڑا جاتا ہے
شعلہ شمع میں گرمی یہ کہاں سے آئی
اس کی گرمی سے تو فانوس جلا جاتا ہے