نظم

تاج محل – ساحر لدھیانوی

Loading

تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی

ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں

اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی

میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا

تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی

اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے

کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں

کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار

مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور

جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی

جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل

ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود

آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل

یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

Our Visitor

0 1 2 7 9 8
Users Today : 11
Users Yesterday : 16
Users Last 7 days : 136
Users Last 30 days : 436
Users This Month : 162
Users This Year : 1489
Total Users : 12798
Views Today : 14
Views Yesterday : 25
Views Last 7 days : 207
Views Last 30 days : 696
Views This Month : 249
Views This Year : 2448
Total views : 30072
Who's Online : 0
Your IP Address : 51.222.253.3
Server Time : 2025-04-10
error: Content is protected !!