غزل – میر تقی میر
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے
رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے
تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے