پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی – مرزا سلامت علی دبیر
پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی
پنہاں درازیٔ پر طاؤس شب ہوئی
اور قطع زلف لیلی زہرہ لقب ہوئی
مجنوں صفت قبائے سحر چاک سب ہوئی
فکر رفو تھی چرخ ہنر مند کے لیے
دن چار ٹکڑے ہوگیا پیوند کے لیے
فرہاد مہر نے یہ کیا طور اختیار
اس کوہ بے ستوں فلک پر لیا قرار
تیشہ لگا کے خط شعاعی کا آب دار
کی جوے ٔشیر صبح سیاہی سے آشکار
لیکن عجیب حال تھا بے شیر شاہ کا
نہر لبن میں شور تھا وا اصغراہ کا
یوسف غریق چاہ سیہ ناگہاں ہوا
یعنی غروب ماہ تجلی نشاں ہوا
یونس دہان ماہیٔ شب سے عیاں ہوا
یعنی طلوع نیر مشرق ستاں ہوا
فرعون شب سے معرکہ آرا تھا آفتاب
دن تھا کلیم اور ید بیضا تھا آفتاب
تھی صبح یا فلک کا وہ جیب دریدہ تھا
یا چہرہ مسیح کا رنگ پریدہ تھا
خورشید تھا کہ عرش کا اشک چکیدہ تھا
یا فاطمہ کا نالۂ گردوں رسیدہ تھا
کہیے نہ مہر صبح کے سینے پہ داغ تھا
امید اہل بیت کا گھر بے چراغ تھا
روز سفید یوسف آفاق شب نقاب
مغرب کی چاہ میں تھا جو پابند اضطراب
سقائے آسماں نے لیا دلو آفتاب
جس میں رسن شعاع کی باندھی بہ آب وتاب
یوسف کو دلو مہر میں بٹھلا کے چاہ سے
مشرق میں لایا کھینچ کے مغرب کی راہ سے
نکلا افق سے عابد روشن ضمیر صبح
محراب آسماں ہوئی جلوہ پذیر صبح
کھولا سپیدی نے جو مصلاے ٔپیر صبح
پھر سجدہ گاہ بن گیا مہر منیر صبح
کرتی تھی شب غروب کا سجدہ درود کو
سیارے ہفت عضو بنے تھے سجود کو
ظلمت جہاں جہاں تھی وہاں نور ہوگیا
پھر مشک شب جہان سے کافور ہوگیا
گویا کہ زنگ آئینے سے دور ہوگیا
باطن رسالۂ شب دیجور ہوگیا
کیا پختہ روشنائی تھی قدرت کے خامے میں
مضموں تھا آفتاب کا ذروں کے نامے میں
کھولے ہوا میں طائر زریں نے بال و پر
بیٹھا وہ آ کے چرخ چہارم کے بام پر
دانے ستاروں کے جو پڑے تھے ادھر ادھر
منقار زر میں چن لیے اس نے وہ سر بسر
گرمیٔ حسن مہر سے آب آب ہو گیا
گردوں پہ خشک چشمۂ مہتاب ہو گیا
پر تھا ہماۓ اوج سعادت شکستہ بال
جز اشک آب و دانے کا تھا دیکھنا محال
تھا پیاس سے سکینہ و اصغر کا غیر حال
منہ زرد لب کبود زباں خشک آنکھ لال
وہ دودھ دودھ کہتا تھا رو کر اشارے سے
یہ پانی پانی کہتی تھی زہرا کے پیارے سے
تھے خرمن فلک پہ ابھی دانۂ نجوم
بونے لگا جو تخم ستم ابن سعد شوم
غلے کے بانٹنے کو ندادی علی العموم
مانند مور دانہ زدوں نے کیا ہجوم
جس کا کہ باپ قاسم رزق زمانہ تھا
ہفتم سے کربلا میں وہ بے آب و دانہ تھا
رومال ظالموں نے زمیں پر بچھا دیے
حصے عمر نے سب کے برابر لگا دیے
اور افسروں کو بدرے کے بدرے اٹھا دیے
اور سر بہ مہر صرہ ٔزر بھی دکھا دیے
لب کھولے حیلہ ور کی عدالت کے جوش نے
گندم نمائی آہ کی یوں جو فروش نے
ہاں اے نمک حلالو نہ ہمت کو ہار یو
بھوکے کو بھوکا پیاسے کو پیاسا ہی ماریو
ابن معاویہ کی خلافت سنواریو
سید کے سر کو سینے پہ چڑھ کر اتاریو
اب تو ہے غلہ کل زرو جاگیرو مال ہے
شبیر کو جو ذبح کرو سب حلال ہے
زینب نے رفتہ رفتہ جو یہ شور سن لیا
بے ساختہ حسین کے فاقے پہ رو دیا
جنگل کو رخ کیا کبھی یثرب کو رخ کیا
آواز دی کہاں ہو تم اے فخر انبیا
قربان جاؤں قبر میں اس شب کو سوتے ہو
یا کربلا میں اپنے نواسے کو روتے ہو
نانا یہ کلمہ گو ہمیں ناحق ستاتے ہیں
پیتے ہیں خود ہمیں نہیں پانی پلاتے ہیں
انصاف کے لیے نہیں کیوں آپ آتے ہیں
اتنا تو پوچھیےیوں ہی مہماں بلاتے ہیں
غلہ سپاہ شام میں تقسیم ہوتا ہے
کنبہ تمہارا تیسرے فاقے سے روتا ہے
سجاد پر مکیں تھے امام فلک مکاں
تقسیم غلہ کا جو سنا حال ناگہاں
ارزاں دیا رفیقوں کو وہ غلۂ گراں
جس غلۂ گراں کے تھے نو دانے آسماں
گندم کے بدلے جنت آدم میں گھر دیا
گھر کیسا کائنات کا مختار کردیا
واں غلہ دے کے سب سے مخاطب ہوا عمر
کھالو کہ اب غذانہ ملے گی کئی پہر
اس جنگ میں ہر اس و تردد ہے سر بہ سر
ایماں کا نقص جان کا خوف آبرو کا ڈر
امت سے سامنا ہے امام جلیل کا
کاٹا ہے جس کے باپ نے پر جبر ئیل کا
بڑھ کر عمر سے کہنے لگے بانیٔ ستم
اپنی تو یہ غذا ہے کہ بھوکے رہیں حرم
نوفل پکارا سیر ہیں آب وغذا سے ہم
کھائی ہے آج قتل علم دار کی قسم
چلایا شمر ہم تو اسی وقت کھائیں گے
جب تین دن کے پیاسے کا سرکاٹ لائیں گے
بولا عمر یہ کبر کی باتیں روا نہیں
منہ کا نوالا شیروں کا سر کاٹنا نہیں
دعواے ٔبے سند سے تمہیں کچھ حیا نہیں
دنیا میں بھوکا پیاسا تو کوئی لڑا نہیں
اترے نہ ہوتے تم جو لب نہر چین سے
پھر دیکھتا میں لڑتے ہو کیوں کر حسین سے
یہ جو کہا عمر نے وہ چپکے چلے گئے
بے عقل نقد جاں کے عوض دین دے گئے
سید کے قصد ذبح پہ سب غلہ لے گئے
اور یاں عمر کے اسپ عراقی کسے گئے
چیدہ کئے عمر نے سلح کار زار کے
خادم لے آئے چرخ سے تیغیں زار کے
سجنے لگا سلاح وغا پھر وہ پر دغا
بے خود ہوا جو خود سر نحس پر دھرا
بے ماہ و آفتاب کے گویا گہن لگا
یا دار قد پہ کفر کا بخت سیہ چڑھا
اسلام میں جو ڈالے تھے رخنے یزید نے
ان رخنوں کو کیا زرہ تن پلید نے
نیزہ سنان ابن انس کا تھا دست جور
یہ نیزہ اور حسین کا سینہ مقام غور
ترکش بھی تھا دریدہ دہن حرملہ کے طور
گویا سواے تیر نہ اس کی زباں تھی اور
اول خدنگ اس کا چلا شاہ خلق پر
آخر کو تیر خرملہ اصغر کے حلق پر
کثرت پہ فوج کی ہوا نازاں وہ خود پرست
بولا کہ اپنی فتح ہے شبیر کی شکست
پہلے کیا فرات کا ظالم نے بندوبست
بٹھلائے دس ہزار زرہ پوش تیز و دست
دیوار آہنی لب دریا بلند کی
دریا نے بانگ ہائے حسینا بلند کی
گھاٹوں کو روک کر یہ پکارا کہ ہاں سنو
بے آبرو کروں گا نہ مانے گا حکم جو
پانی کا اک قطرہ نہ شاہ زمن کو دو
میت کے غسل کو نہ وضو کو نہ پینے کو
جاں بر نہ تشنگی سے امام حجاز ہو
خشکی میں غرق آل نبی کا جہاز ہو
چیدہ کیے ہزار جوانان ناخلف
اس عہدے پر کیا انہیں مامور ہر طرف
ساغر بکف رہیں وہ تنک ظرف صف بہ صف
جب العطش کہیں درپاک شہ نجف
پانی ا نھیں دکھا کے یہ بے آبرو بہا ئیں
پانی بہا کے تشنہ لبوں کا لہو بہا یئں
چالیس سو پھر اس نے کماں دار روسیاہ
بٹھلاے چار گوشوں میں گرد خیام شاہ
سادات کے لیے نہ رکھا گوشہ پناہ
روح بتول کہتی تھی رو رو کے آہ آہ
سنتا ہوں آن بان پہ سادات مرتے ہیں
دیکھوں تو مورچے کہاں شبیر کرتے ہیں
جب صبح بے ردای ٔزینب عیاں ہوئی
اور آخری سپاہ خدا میں اذاں ہوئی
ناموس مصطفے میں بپا یہ فغاں ہوئی
بس اب بہار گلشن زہرا خزاں ہوئی
کانپے گا عرش فاطمہ کے شوروشین سے
جس دم وداع ہوئے گی زینب حسین سے
یاں تھا ہجوم غم حرم نیک ذات پر
واں اہل شام نے کیا قبضہ فرات پر
نرغہ کیا عدو نے شہہ خوش صفات پر
ظلمت محیط ہوگئی آب حیات پر
شب کیا گئی نصیب کا کچھ پھیر ہوگیا
ہوتے ہی صبح خیمے میں اندھیر ہوگیا
کیا رو سفید فوج خدا ہے حضور صبح
آئی ہے ان کے عقد عبادت میں حور صبح
رخ سے طلوع مہر جبیں سے ظہور صبح
اک سمت ان کا نور ہے اک سمت نور صبح
سرسجدے میں ہے تن ہے قعود و قیام میں
کیا صبح کی بہار ہے فوج امام میں
آواز ارکبو جو ملائک سناتے ہیں
غازی نماز پڑھ کے مصلےٰ اٹھاتے ہیں
تعقیب کی دعا یئں مگر پڑھتے جاتے ہیں
سجدے کو آستانۂ مولا پہ آتے ہیں
در پر رکھے جبینوں کو سب خوش خصال ہیں
ایک آسمان اور بہتر ہلال ہیں
مثل قمر یہ عابد شب زندہ دار ہیں
ماندن مہر متقیٔ روزگار ہیں
شکل فلک رکوع میں لیل و نہار ہیں
مثل زمیں سجود میں یہ خاک سار ہیں
سجدے سے ان کے خاک وظیفے میں رہتی ہے
تسبیح ان کے ہاتھ میں تکبیر کہتی ہے
دیکھو خشوع کو تو لرزتا ہے تن تمام
پوچھو رجوع قلب تو دل ہے سوئے امام
کیا زبد ہے ریا سے بری ہیں یہ نیک نام
جس کو نماز کہتے ہیں وہ یہ ہے والسلام
روشن ہے ان کا اوج عبادت جہان پر
سجادے ہیں زمیں پہ نماز آسمان پر
ہے دست بوس ایک کی شمشیر آب دار
در نجف کا سبحہ کسی کے گلے کا ہار
کوئی خیال حور شہادت سے ہم کنار
کوثر پہ آنکھ ایک جری کی پیالہ دار
کہتے ہیں راہ حق میں شرف کی کمی نہیں
اس راہ میں جو خاک نہ ہو آدمی نہیں
سمجھے ہیں نامرادی ٔدنیا کو یہ مراد
غم ان کے دل میں شاد ہے دل ان کا غم میں شاد
ہرعضو میں ہے دل کی طرح سے خدا کی یاد
قرآن پڑھنا ختم ہے ان پر دم جہاد
بازوے ٔجنگ مثل ترازو تلے ہوئے
ہیں زین پر کہ رحل پہ قرآں کھلے ہوئے
لشکر میں ہے یہ اکبر و عباس کا وقار
وہ انجمن میں شمع تو یہ باغ میں بہار
آنکھوں میں وہ نگاہ تو سینوں میں یہ قرار
وہ بازؤں میں زور یہ قبضے میں ذوالفقار
ان دونوں کی یہ فوج خدا میں مثال ہے
در نجف وہ ہے تو یہ حیدر کا لال ہے
وہ چشم ہے پلک میں تو یہ دل ہے سینے میں
حیدر وہ کعبے میں یہ پیمبر مدینے میں
یوسف کنویں میں نوح ہے گویا سفینے میں
آب بقا وہ چشمے میں یہ زر خزینے میں
وہ آب موتیوں میں یہ اک گل ہزاروں میں
خوشبو وہ پھولوں میں یہ تجلی ستاروں میں
ہر صبح مہر و ماہ کی تو کم ہے روشنی
پر دیکھو ان کے عارضوں کی جلوہ افگنی
خورشید وہ جری ہے تو ہے چاند یہ غنی
اک سمت کو ہے دھوپ اور اک سمت چاندنی
پائی نہ اس طرح کی ضیا ماہتاب میں
دیکھی نہ آفتاب نے یہ دھوپ خواب میں
والشمس سے رسول خدا ہیں مراد اب
اس شمس کی شعاع ہے اکبر کے رخ میں سب
عباس کا ہے ماہ نبی ہاشمی لقب
دودر ہیں ان کی مہر و عطا کے یہ روز و شب
ہر صبح و شام روئے خلائق پہ باز ہیں
ذرہ نواز وہ ہیں یہ اختر نو ہیں
عباس سے یہ کہتے ہیں اکبر کہ کیوں چچا
کیا ہوگا گرد خیمہ بھی ہے لشکر جفا
اماں کے پردے کا مجھے اندیشہ ہے بڑا
باندھیں گے اپنا مورچہ ہم بھی پئے و غا
خیمے سے فاصلہ نہ پدر سے جدائی ہو
یہ طور ہو اگر تو بخوبی لڑائی ہو
اماں نے کہہ دیا ہے کہ بخشوں گی میں نہ شیر
اکبر تمہارے ہوتے لگا شاہ پر جو تیر
حافظ رہوں گا باپ کا میں وقت دار و گیر
لیکن غضب ہے اہل حرم ہوں اگر اسیر
خیر اب تو دامن شہ خوش خو نہ چھوڑیں گے
جو ہو سو ہو حسین کا پہلو نہ چھوڑیں گے
عباس کہتے ہیں کہ فدا تم پہ ہو چچا
زینب کے پالنے کی یہ غیرت ہے میں فدا
وہ پوچھتے ہیں آپ کہیں ہے ارادہ کیا
یہ ہاتھ منہ پہ پھیر کے کہتے ہیں دیکھنا
جینے سے ہاتھ دھوتے ہیں مرد اپنی بات پر
اپنا تو آج مورچہ ہوگا فرات پر
کہتے ہیں جھوم جھوم کے زینب کے یادگار
اس حملے میں کمند ہیں اپنے صفوں کے پار
ابن حسن کے حسن بیاں سے ہے آشکار
ارزق کا رزق برق مٹادوں تو ہو قرار
دعوے ہیں آج حیدریوں کو بڑے بڑے
چاہیں تو غرب و شرق کو لے لیں کھڑے کھڑے
کیوں کر نہ شیر ہوں خلف شیر کبریا
سیدانیوں کا دودھ ہے ان پیاسوں نے پیا
دو دن سے گو نصیب میں پانی ہے نے غذا
لیکن وہی ہے چہرے کی سرخی وہی ضیا
سید ہر ایک حال میں خوش حال رہتے ہیں
کھائیں نہ کھائیں شیروں کے منہ لال رہتے ہیں
چہروں سے کیا ضیا و صفا آشکار ہے
شہر حلب انہیں کا اک آئینہ دار ہے
اک بندہ تار زلف کا ملک تتار ہے
یہ باغ رخ بہشت کی فصل بہار ہے
گلو گوں قدوں کے چہرے ہیں کس آب و تاب کے
ہیں پھول کے درخت میں پھل آفتاب کے
ابرو نے کچھ ہلال کا باقی رکھا ہے نام
رخ نے کیا تمام مہ چاردہ کا کام
کس رو سے ان کے رخ کا ہو روکش مہ تمام
دو ہفتے وہ ہے اور یہ ہیں مہرباں مدام
قدرت کے سب لکھے ہوئے یہ خط و خال ہیں
پر نور چہرے مطلع حسن و جمال ہیں
آئینہ روبروۓ جہاں ہے جو خوش نما
وہ ان کا روشناس ہے بس اور وجہ کیا
اب تک انہیں حجابوں کے دھوکے میں بارہا
پھرتا ہے عکس آئینہ کے گھر میں جا بہ جا
پر طاق دل سے آئینہ ہے یہ گرا ہوا
جو آئینے کے عکس کا ہے منہ پھرا ہوا
دنداں بہادروں کے کجا اور در کجا
دو حرف در کے وہ بھی ہیں باہم جدا جدا
دنداں ملے ہوئے ہیں جدائی نہیں ذرا
پاس ادب سے دور ہے گر ان کو در کہا
دنداں گہر ہیں مخزن پروردگار کے
دل شرم سے چھدے ہیں در آب دار کے
رخ چشمۂ حیات احبا کے واسطے
خط لب کا ذوالفقار ہے اعدا کے واسطے
فیض دہان پاک ہے دنیا کے واسطے
یاں جاے دم زدن نہیں عیسیٰ کے واسطے
درج دہن کے دانتوں سے رتبے زیاد ہیں
یہ وہ صدف ہیں جس کے گہر خانہ زاد ہیں
پلکوں کے نیمچوں سے زبردست زیر ہیں
یاں زندگی سے مردم خوں خوار شیر ہیں
صید افگنی پہ چشم کی آہو دلیر ہیں
آنسو نہیں پلک کے نیستاں میں شیر ہیں
غیرت سے آب دیدہ ہر اک شہ سوار ہے
تیغ اک نظر سناں مژہ ٔ آب دار ہے
باندھے کمر جہاد پہ خود لیس ہے کماں
غصے سے ایک پوست ہے بالاے استخواں
اس قوس کی ہے قوس قزح دل سے مدح خواں
نیزے سے نیزہ باز فلک طالب اماں
اس نیزے سے مباحثے کی کس کو تاب ہے
گویا زباں کی طرح سے حاضر جواب ہے
ڈھال ان کی ہے وہ بدر کی صورت دم جدال
اس بدر سے تراشے ہیں تیغوں کے سو ہلال
پر ہے جہاد میں یہ وہی بدر بے زوال
حقا کہ حق پہ ہیں یہ قریشی ٔخوش خصال
پس ان کے دوش پر یہ سپر کی دلیل ہے
پشت و پناہ کعبہ رب الجلیل ہے
ناگاہ خیمہ گاہ سے شور بکا اٹھا
سجادے سے نمازیٔ خیر النسا اٹھا
اور سبز پردۂ در آل عبا اٹھا
آواز آئی بانو کی وارث مرا اٹھا
راضی سکینہ اپنی یتیمی پہ ہوگئیں
پچھلے سے جاگتی رہیں اس وقت سوگئیں
کلثوم صبر کر چکیں مظلوم بھائی کو
زینب نے بھی لٹا دیا ماں کی کمائی کو
بانو نے بھی قبول کیا بے ردائی کو
اب کون رو کے ہائے شہہ کربلائی کو
عابد نے کہہ دیا کہ رہ کر دگار میں
ہم تازیانے کھائیں گے بابا بخار میں
خدام تازیٔ شہ والا کو در پہ لائے
مولاۓ حلہ پوش کفن پہنے باہر آئے
اور جسم سے رکاب نےدونوں قدم لگائے
زینب پکاری ہائے حسین غریب ہائے
میکال روئے روح امیں نالہ کش ہوئے
سامان موت پر ملک الموت غش ہوئے
جنگاہ میں صفیں جو بندھیں فوج شام کی
ہر تیغ زن کو فکر ہوئی ننگ و نام کی
خیمے کے در پہ آئی سواری امام کی
مسند الٹ دی موت نے خیرالانام کی
تاریک چشم اہل حرم میں جہاں ہوا
زہرا کا چاند لے کے ستارے رواں ہوا
گردوں نشیں سواریٔ شہ کا غبار تھا
اک ایک ذرہ اس کا ثریا وقار تھا
شہ مہر زیں تھے شیر ژیاں راہ دار تھا
زہرا کا آفتاب اسد پر سوار تھا
حلقے کیے تھے سب رفقا اس جناب کے
یا چودہویں کے چاند تھے گرد آفتاب کے
قبروں کے واسطے جو خریدی تھی کچھ زمیں
ٹھہری وہاں سواریٔ شاہ فلک نشیں
لشکر کو اپنے دیکھ کے بولے امام دیں
لے کر بلا خدا نے دیے تجھ کو یہ مکیں
سب شیر حق کے لال ہیں زہرا کے پیارے ہیں
در نجف ہیں عرش معلا کے تارے ہیں
کہتے تھے کربلا سے یہ سلطان کربلا
جومثل سیل خیل جفا قہر سے بڑھا
صف باندھنے لگا پسر سعد بے حیا
مختار اس نے میمنہ کا شیث کو کیا
چن چن کے نیزہ دار بھی چالیس سود یے
رہ وار گرم رو دیے ملبوس نو دیے
ازرق کو تیر زن دیے پنجاہ صد جدا
کی اس نے زیب میسرہ ٔلشکر جفا
اور دے کے دس ہزار جو انان پر دغا
سونپا جناح حنظلہ کو اس نے برملا
مل کر گلے نبی و علی رن میں روتے تھے
اک سر کے کاٹنے کے یہ سامان ہوتے تھے
صف باندھ کر پسر سے مخاطب ہوا عمر
اکبر امام زادے ہیں تو ہے مرا جگر
اپنا حشم دکھا انہیں پھر کر ادھر ادھر
سرداروں کو پکارا کہ ہاں صاحب ہنر
فوج خدا کے سامنے جاؤ رجز پڑھو
گھوڑے اٹھاؤ نیزے ہلاؤ رجز پڑھو
چلہ دکھایا حرملہ نے بڑھ کے تیر کا
یاد آیا شہ کو دودھ اگلنا صغیر کا
چمکا جو بھالا ہلنے میں ابن نمیر کا
مرقد بلا نجف میں جناب امیر کا
دل پکڑے آئے احمد مرسل مدینے سے
لپٹا لیا حسین نے اکبر کو سینے سے
چمکا کے تیغ شمر بڑھا فوج شام سے
بولا ملا کے آنکھ سپاہ امام سے
کس قدر بغض ہے اسے پیاسے کے نام سے
نکلا ہی پڑتا ہے مرا خنجر نیام سے
سادات پر نہ رحم کروں نے کرم کروں
گر پانچ حلق ہوں تو برابر قلم کروں
ناگہ رواں ہوا پسر سعد کا پسر
ہم سن رفیق ویار جلو میں ادھر ادھر
ہاتھوں پہ خادم آگے لیے تیغ اور سپر
اور اک غلام کھولے ہوئے سر پہ چتر زر
یوں رد ہوا وہ اکبر ذی شاں کے سامنے
فرعون جیسے موسیٔ عمراں کے سامنے
مل کر حسینیوں نے کہا اے شہ امم
اب کب تلک سکوت کہ رکتا ہے اپنا دم
قرنا بجایا چاہتے ہیں بانیٔ ستم
یاں صف کشی نہ مورچہ نے طلب نہ علم
اب ضبط اے وزیر یداللہ قہر ہے
شیروں کے منہ پہ چڑھتے ہیں روباہ قہر ہے
شہ بولے کیا ارادہ کریں صف کشی کا ہم
واں کثرت سپہ ہے علم ہیں کئی علم
یاں دوست کیا عزیز بھی کم زندگی بھی کم
مظلوم کھائیں گے مری مظلومی کی قسم
ہر سال اس مہینے میں سب خاک اڑائیں گے
اس روز تعزیہ مرا مومن اٹھائیں گے
آئی ندا یہ عرش سے اے حامل بلا
اس سمت زر کے بندے ہیں تیری طرف خدا
ہاں جلد اب منگا علم فوج کبریا
باندھے پرا کھڑے ہیں زیارت کو انبیا
کس بیرق و نشاں نے بزرگی یہ پائی ہے
تیرے علم کے سائے میں میری خدائی ہے
عباس نام ور کو پکارے شہ امم
ہاں اے نشان شیر خدا لاؤ تو علم
خاطر نشاں رکھو یہ نشاں دیں گے تم کو ہم
عباس حکم شہ سے چلے جانب حرم
پہنچے جو خیمۂ شہ عالی وقار میں
دیکھا کھڑا ہوا ہے علم انتظار میں
زینب نے دیکھ کر رخ عباس ذی حشم
خود اپنے چھوٹے بھائی کو اٹھ کر دیا علم
کی سات بار ناد علی بازؤں پہ دم
سرکو جھکا کے چوم لیے شیر نے قدم
طور آگیا پسند جو حق کے فدائی کا
زینب نے سر لگا لیا سینے سے بھائی کا
عباس لے کے رایت شاہ امم چلے
کس شان سے علی کا اٹھاکر علم چلے
گویا لیے قبالہ ٔباغ ارم چلے
پٹکا علم کا تھام کے اہل حرم چلے
زینب پکاری شاہ نجف یاد آتے ہیں
کس شان سے نشاں لیے عباس جاتے ہیں
یارب نشان والے کا نام و نشاں رہے
یہ شمس بے زوال یہ گل بے خزاں رہے
لشکر رہے حسین رہیں یہ نشاں رہے
اس حامل علم پہ علی کی اماں رہے
روشن رہے قمر شہ بدر و حنین کا
وہ خاک میں ملے جو ہو دشمن حسین کا
اس شان سے بڑھا علم اقدس ر سول
سب انبیا جلو میں رواں بادل ملول
کرو بیان عرش کا ہر اک قدم نزول
سرننگے ساتھ حوروں کے زیر علم بتول
اک سمت سبز پوش جواں روتے آتے تھے
حامل پہ ہر قدم پہ فدا ہوتے آتے تھے
عباس شہ کے پاس جو پہنچے علم لیے
اقبال آیا پشت پہ جاہ و حشم لیے
شانوں کے بوسے شہ نے بہ لطف و کرم لیے
عباس نام دار نے جھک کر قدم لیے
کی عرض مجھ کو سب میں نمودار کر دیا
بے بال و پر کو جعفر طیار کر دیا
ناگاہ فضہ دوڑی ہوئی آئی ہے بے حواس
کچھ شہ کے کان میں کہا اور پھر گئی اداس
زہرا کے لال کو ہوئی تشویش بے قیاس
اصحاب پوچھنے لگے آ آ کے پاس پاس
نامحرموں میں کہنے کو کیا فضہ آئی تھی
بولے پیام زینب بے کس کا لائی تھی
عباس ہاتھ باندھ کے بولے کہ یا امام
میرے علم اٹھانے میں تو کچھ نہیں کلام
عون و محمدان کے پسر ہیں میں ہوں غلام
شہ نے کہا نہیں مجھے بھیجا ہے یہ پیام
مالک ہو چاہو جیسا جو رتبہ ہو دیجیو
سردار فوج کا مرے اکبر کو کیجیو
سب نے کہا یہی ہے ہمارا بھی مدعا
اکبر پہ سر نثار ہے جان آپ پر فدا
بیٹا وہاں عمر کا ہے سالار فوج کا
سردار ہوں ہمارے بھی ہم شکل مصطفی
گو وہ پسر کو لاکھ جواہر پنہائے گا
نقشہ کہاں سے احمد مرسل کا لائے گا
پھر شہ نےکی درست صف لشکر خدا
روئے زمیں ہوا صف لشکر سے خوش نما
بینی سے حسن چہرے کا ہو جس طرح سوا
روے زمیں فقط نظر آتا تھا دائما
آراستہ جو رن میں صف فوج دیں ہوئی
سیدھی نمود بینی روئے زمیں ہوئی
اپنے حبیب خاص کو تو میمنہ دیا
اور میسرہ زہیر کو شہ نے عطا کیا
بخشی جناح قلب کو اطفال سے ضیا
اکبر سے پوچھا کیوں جگر شیر کبریا
اس لشکر قلیل کے مختار ہوتے ہو
اک دوپہر کے واسطے سالار ہوتے ہو
وہ بولے دوپہر کا کسے انتظار ہے
گر آپ حکم دیں ابھی بندہ نثار ہے
شہ نے کہا یقیں مجھے اے گل عذار ہے
تیرا جوانا مرگ لقب آشکار ہے
سالار اسے کیا جوشہ عرش اوج نے
دکھلائی نذر ہاتھوں پہ سر رکھ کے فوج نے
خیموں میں دختران علی ہول کھاتی تھیں
پردہ اٹھا کے وارثوں کو دیکھ جاتی تھیں
بہر دعا مصلا برابر بچھاتی تھیں
گہ عالم ہر اس میں زیور بڑھاتی تھیں
باجے کے غل سے بچوں کو دہشت جو ہوتی تھی
اصغر کے دل پہ ہاتھ رکھے بانو روتی تھی
زینب سر اپنا پیٹ کے کرتی تھی یہ کلام
ہے ہے بچے گی کاہے کو جان شہ انام
فوجوں کا یاں سے تا در کوفہ ہے اژدہام
قاصد بلاؤ نامہ لکھو اور یہ دو پیام
گھیرا ہے سب نے فاطمہ کے نورعین کو
آؤ مدینے والو بچاؤ حسین کو
چلاتی تھیں یہ روکے کہ اماں دہائی ہے
بی بی ترے قمر پہ گھٹا آج چھائی ہے
ظلم و جفا کے نرغے میں زینب کا بھائی ہے
بابا بچائیے دم مشکل کشائی ہے
گاہے پکارتی تھی رسالت مآب کو
نانا گہن لگا ہے ترے آفتاب کو
نازاں تھا صبر صبر شہ حق شناس پر
قرباں تھا ہوش ابن علی کے حواس پر
دریا کا زہرہ آب تھا سید کی پیاس پر
مایوسی آس پاس تھی مرنے کی آس پر
ماں رن میں اور خیمے میں ماں جائی روتی تھی
تنہائی پر حسین کی تنہائی روتی تھی
اس وقت آئے شمر و عمر روبروے شاہ
بولے سپاہ کیا ہوئی اے شام کم سپاہ
کیوں ہم ہوئے تباہ کہ حضرت ہوئےتباہ
اس لشکر قلیل پہ تھا افتخار واہ
کیا رہ گیا کہ جس پہ یہ کچھ آن بان ہے
بیعت کریں جو آپ تو اب بھی امان ہے
لاحول پڑ ھ کے کہنے لگے سرور ہدا
گو اب وہ فوج ہے نہ علم دار با وفا
اس بے کسی میں بھی وہی ہے حوصلہ مرا
بیعت کبھی کروں گا نہ میں لاکھ ہو جفا
واللہ ہاتھ دو گا نہ فاسق کے ہات میں
سرجائے گا پہ فرق نہ آئے گا بات میں
ظالم پکارا سر نہ کٹاؤ تو کیا کرو
اب اختیار کیا جو طلب خوں بہا کرو
تیغ دوسر کو میان سے لو سامنا کرو
دو دن کی بھوک پیاس میں کیوںکرو دغا کرو
ہو بھی کلائیوں میں جو دست خدا کا زور
کیوں کر دکھاؤ گے اسد کبریاں کا زور
شہ بولے تم سمجھتے ہو ناچار ہے حسین
سبط نبی ہے خلق کا مختار ہے حسین
کرار ابن حیدر کرار ہے حسین
قہرو جلال خالق غفار ہے حسین
ساحل پہ آ کے خون کا دریا بہاتا ہوں
اک فاقہ کش کے دودھ کی طاقت دکھاتا ہوں
آگے بڑھے جو شہ تو وہ مکارہٹ گئے
اپنی جگہ پہ اہل ضلالت پلٹ گئے
الٹی جو آستین دو عالم الٹ گئے
رکھا جو ہاتھ قبضے پہ دل سب کے پھٹ گئے
شورش ہوئی زمان پہ برنا و پیر کی
کھنچتی ہے ذوالفقار جناب امیر کی
باہر نیام سے سر تیغ رواں ہوا
یا آستین سے ید بیضا عیاں ہوا
اژ در نکل کے غار سے شعلہ فشاں ہوا
بے پردہ مہر خسرو کون و مکاں ہوا
جوہر نہیں وہ تیغ شہ خوش خصال میں
دیکھو چمک رہے ہیں ستارے ہلال میں
کھنچتے ہی ذوالفقار نے حضرت کو دی صدا
اے رہنما کشندۂ اصغر کو تو بتا
ہے کس پرے میں قاتل ہم شکل مصطفا
دریا پہ ہوگا نوفل مکار و بے حیا
کوئی حسینیوں کا کشندہ نہ چھوڑوں گی
میں شمر و ابن سعد کو زندہ نہ چھوڑوں گی
دامن کو ذوالفقار سنبھالے ہوئے چلی
سانچے میں پھل کے فتح کو ڈھالے ہوئے چلی
جوہر کی انکھڑیوں کو نکالے ہوئے چلی
نالوں کی زلف دوش پر ڈالے ہوئے چلی
کھنچ کر چلی یہ چال نئی اشقیا کے ساتھ
ہفتاد ہاتھ بڑھ گئی ناز و دا ادا کے ساتھ
سیفی چلی کہ سیف ید اللہ رواں ہوئی
تیغ نگہ نیام فلک میں نہاں ہوئی
صوفی کی طرح چلہ نشیں ہر کماں ہوئی
ہستی فنا ہوئی تو اماں بے اماں ہوئی
زیر فلک تڑپنے سے اس شعلہ بار کے
بجلی کے سر پہ رعد گرا چیخ مار کے
آنکھیں زرہ کی تیغ پہ گرویدہ ہوگئیں
مانندکاہ برچھیاں کاہیدہ ہوگئیں
سہمیں کمانیں دوش پہ چسپیدہ ہوگئیں
تیغیں سمٹ کے قبضوں میں پوشیدہ ہوگئیں
حربے تو ہاتھ سے گرے ہاتھ آستین سے
سر تن سے پاؤں رن سے رن اٹھا زمین سے
وہ تیغ یوں چمک کے سوئے راس چپ گئی
کوڑا لگایا رعد نےبجلی تڑپ گئی
بن کر سپاہ کے لیے لرزے کی تپ گئی
دوزح کے شعلوں کی کفنی تن پہ نپ گئی
دل ناریوں کا تپ کی حرارت سے جل گیا
کچھ کچھ بخار تیغ کے دل کا نکل گیا
ناز وادا سے لیلی فتح و ظفر چلی
مجنوں ہزاروں ہوگئے اس کے جدھر چلی
فوج عدو میں موت کی بن کر خبر چلی
مغرور خود سروں پہ جو تیغ دو سرچلی
شفاف و صاف جنگ کا میدان کردیا
توڑے پرے صفوں کو پریشان کردیا
یہ کلک تیغ فرد سپر پر جو چل گیا
ہوکر نڈھال ڈھال کا چہرہ بدل گیا
فوراً سپر میں ڈوب کے باہر یہ پھل گیا
گویا گہن میں آکے مہ نو نکل گیا
تن غرب تھا نہ شرق تھا اہل جدال کا
پر اس پہ تھا طلوع و غروب اس ہلال کا
ابرو کی شکل تھی خم شمشیر سے عیاں
چلتے ہی رن میں بندھ گیا بھونچال کا سماں
یوں جسم رعشہ دار سے روحیں ہوئیں رواں
جس طرح بھاگیں زلزلے میں چھوڑ کر مکاں
پیش نگاہ موت تھی تیغ دوسر نہ تھی
کچھ تن بدن کی خیبریوں کو خبر نہ تھی
آب دم حسام سے برسات ہوگئی
ایسی جھڑی لگی کہ گھٹا مات ہوگئی
ٹاپوں کی راہ کوچۂ ظلمات ہوگئی
رنگ سپاہ شام اڑا رات ہوگئی
تھا شور دھوپ دیکھنے کو سب ترستے ہیں
چھایا ہے ابر تیغ علی سر برستے ہیں
شہباز تیغ نے سپروں کو اڑا دیا
چن چن کے افسروں کے سروں کو اڑا دیا
خنجر قلم کیے تبروں کو اڑا دیا
پسپا کیا سروں کو پروں کو اڑا دیا
برش کی یہ بندھی تھی ہوا رزم گاہ میں
ہر سمت خاک اڑاتی تھی جنگی سپاہ میں
ظلمت میں آنے جانے کو آب حیات تھی
اور روشنی میں نیر اعظم کی ذات تھی
اندھیر کرنے کو یہ قیامت کی رات تھی
منہ سے نکلنا اس کے لیے ایک بات تھی
رن میں تو کافروں کے فقط حلق پر پھری
پر شہروں میں زبانوں پہ مثل خبر پھری
آخر پکارے سب کہ پیمبر کا واسطہ
اے تیغ نوجوانی اکبر کا واسطہ
اے تیغ روح فاتح خیبر کا واسطہ
اے تیغ خوردسالی اصغر کا واسطہ
کوفے کی یا کہ شام کے جانے کی راہ دے
پہنچے سزا کو اپنی ہمیں تو پناہ دے
قبضے کو چوم کر یہ پکارے شہ زمن
بس ذوالفقار بس کہ لرزتے ہیں سب کے تن
شمشیر نے جواب دیا ہو کے نعرہ زن
پہلے ہی کہہ چکی ہوں یہ حضرت سے میں سخن
لاشوں سے شام و کوفہ کے میداں بھروں گی میں
دم لوں گی جب کہ شمر کو بے دم کروں گی میں
اے ذوالفقار بس شدنی یہ نہیں ہے آہ
تو اس کا سر نہ کاٹ سکے گی خدا گواہ
شبیر کا گلا وہی کاٹے گا بے گناہ
خنجر ہے اس کا اور پیمبر کی بوسہ گاہ
جانے دے قتل شمر سے کیا تجھ کو کام ہے
اے تیغ یہ حسین کے قاتل کا نام ہے
روتی ہوئی وہ تیغ درآ ئی نیام میں
اور شاہ بے بپاہ گھرے فوج شام میں
آئے ملک فلک سے رکاب امام میں
ہر اک یہ نوحہ کرتا تھا اس اژدھام میں
یا شیر کر دگار بچا لو حسین کو
دامن میں اپنے آ کے چھپالو حسین کو
خاک شفا سروں پہ اڑاتے چلے ملک
خون جگر سے سبحۂ یاقوت تھی پلک
پہنچے تھے تا فلک کہ لرزنے لگے فلک
اور یہ فغاں زمیں سے گئی آسماں تلک
فریاد گوشوارۂ عرش خدا گرا
لو خاک پر ستارۂ خیر النسا گرا
گرتے ہی خاک پر شہ دیں کو غش آگیا
پھر بھی نہ کوئی پیاسے کو پانی پلا گیا
خنجر لگا گیا کوئی نیرہ لگا گیا
کھولی جو آنکھ شہ نے ہر اک تھر تھرا گیا
دشمن بھی کہہ اٹھے یہ پیمبر کا پھول ہے
آنکھوں میں صاف گردش چشم رسول ہے
پر آہ آہ شمر نے بڑھ کر غضب کیا
سینے پہ موزہ حلق پہ خنجر کو رکھ دیا
آئے لحد کو چھوڑ کے محبوب کبریا
دوڑے نجف سے روتے ہوئے شاہ اوصیا
زہرا پکاری یہ دل مضطر کا چین ہے
میرا حسین ہے ارے میرا حسین ہے
اے شمر مصطفی کی رسالت کا واسطہ
اے شمر مرتضی کی امامت کا واسطہ
اے شمر اہل بیت کی حرمت کا واسطہ
اے شمر کبریا کی عدالت کا واسطہ
صدقہ نبی کی روح کا حیدر کے صبر کا
تو گل نہ کر چراغ پیمبر کی قبر کا
چلائی در سے زینب بے کس بھی وا اخا
اماں تو آئیں میں بھی نکل آؤں ننگے پا
بولی سکینہ روک لوں میں خنجر جفا
باقر پکار ا اروکے میں سوجان سے فدا
شاید یہ تیغ تھام لے معصوم جان کر
دادا ترے گلے پہ گلا رکھ دوں آن کر
پھر مڑ کے زیر تیغ یہ بولے شہ امم
زینب تجھے شہادت شبیر کی قسم
بٹھلا مرے یتیموں کو خیمے میں ایک دم
بٹتا ہے دھیان محو جمال خدا ہیں ہم
بچوں کو لے کے دیوڑھی سے زینب تو ہٹ گئی
یاں بوسہ گاہ احمد مختار کٹ گئی
برپا ہوا حرم میں قیامت کا شوروشین
نہ سینوں میں قرار رہا نہ دلوں میں چین
سن سن کے قتل گاہ میں خیرالنسا کے بین
زینب پکاری بی بیو مارے گئے حسین
تھا وقت عصر بھائی سے زینب جو چھٹ گئی
مغرب تلک حسین کی سرکار لٹ گئی
بس اے دبیرؔ دھوم ہے اس شوروشین کی
لٹتی ہے بارگاہ شہ مشرقین کی
زینب کے آگے جلتی تھی مسند حسین کی
ہلتی تھی قبر فاتح بدر و حنین کی
خالق سے کہہ کہ بخش در مدعا مجھے
حضرت کی کربلا کا مرقع دکھا مجھے