غزل

کم فرصتیٔ گل جو کہیں کوئی نہ مانے – میر تقی میر

Loading

کم فرصتیٔ گل جو کہیں کوئی نہ مانے

ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے

تھے شہر میں اے رشک پری جتنے سیانے

سب ہو گئے ہیں شور ترا سن کے دوانے

ہمراہ جوانی گئے ہنگامے اٹھانے

اب ہم بھی نہیں وے رہے نے وے ہیں زمانے

پیری میں جو باقی نہیں جامے میں تو کیا دور

پھٹنے لگے ہیں کپڑے جو ہوتے ہیں پرانے

مرتے ہی سنے ہم نے کسل مند محبت

اس درد میں کس کس کو کیا نفع دوا نے

ہے کس کو میسر تری زلفوں کی اسیری

شانے کے نصیبوں میں تھے یوں ہاتھ بندھانے

ٹک آنکھ بھی کھولی نہ زخود رفتہ نے اس کے

ہرچند کیا شور قیامت نے سرہانے

لوہے کے توے ہیں جگر اہل محبت

رہتے ہیں ترے تیر ستم ہی کے نشانے

کاہے کو یہ انداز تھا اعراض بتاں کا

ظاہر ہے کہ منہ پھیر لیا ہم سے خدا نے

ان ہی چمنوں میں کہ جنہوں میں نہیں اب چھاؤں

کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوا نے

کب کب مری عزت کے لیے بیٹھے ہو ٹک پاس

آئے بھی جو ہو تو مجھے مجلس سے اٹھانے

پایا ہے نہ ہم نے دل گم گشتہ کو اپنے

خاک اس کی سر راہ کی کوئی کب تئیں چھانے

کچھ تم کو ہمارے جگروں پر بھی نظر ہے

آتے جو ہو ہر شام و سحر تیر لگانے

مجروح بدن سنگ سے طفلاں کے نہ ہوتے

کم جاتے جو اس کوچے میں پر ہم تھے دوانے

آنے میں تعلل ہی کیا عاقبت کار

ہم جی سے گئے پر نہ گئے اس کے بہانے

گلیوں میں بہت ہم تو پریشاں سے پھرے ہیں

اوباش کسو روز لگا دیں گے ٹھکانے

Our Visitor

0 0 9 8 7 8
Users Today : 0
Users Yesterday : 10
Users Last 7 days : 93
Users Last 30 days : 425
Users This Month : 0
Users This Year : 4624
Total Users : 9878
Views Today :
Views Yesterday : 21
Views Last 7 days : 208
Views Last 30 days : 782
Views This Month :
Views This Year : 8660
Total views : 24665
Who's Online : 0
Your IP Address : 3.15.29.146
Server Time : 2024-11-01