ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام – غالب
ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام
دو دن آیا ہے تو نظر دم صبح
یہی انداز اور یہی اندام
بارے دو دن کہاں رہا غائب
بندہ عاجز ہے گردش ایام
اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام
مرحبا اے سرور خاص خواص
حبذا اے نشاط عام عوام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
اس کو بھولا نہ چاہیے کہنا
صبح جو جائے اور آئے شام
ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام
راز دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے
مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نمام
جانتا ہوں کہ آج دنیا میں
ایک ہی ہے امید گاہ انام
میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش
غالبؔ اس کا مگر نہیں ہے غلام
جانتا ہوں کہ جانتا ہے تو
تب کہا ہے بہ طرز استفہام
مہر تاباں کو ہو تو ہو اے ماہ
قرب ہر روزہ بر سبیل دوام
**
تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا
جز بہ تقریب عید ماہ صیام
جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماہ تمام
ماہ بن ماہتاب بن میں کون
مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام
ہے مجھے آرزوئے بخشش خاص
گر تجھے ہے امید رحمت عام
جو کہ بخشے گا تجھ کو فر فروغ
کیا نہ دے گا مجھے مئے گلفام
جب کہ چودہ منازل فلکی
کر چکے قطع تیری تیزی گام
تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر
کوئے و مشکوئے و صحن و منظر و بام
دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز
اپنی صورت کا ایک بلوریں جام
پھر غزل کی روش پہ چل نکلا
توسن طبع چاہتا تھا لگام
زہر غم کر چکا تھا میرا
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام
مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں
غم سے جب ہو گئی ہو زیست حرام
بوسہ کیسا یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھیں وہ لذت دشنام
کعبے میں جا بجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دیر میں احرام
اس قدح کا ہے دور مجھ کو نقد
چرخ نے لی ہے جس سے گردش وام
بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار
دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام
چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے
کیوں رکھوں ورنہ غالبؔ اپنا نام
کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
اے پری چہرہ پیک تیز خرام
کون ہے جس کے در پہ ناصبہ سا
ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام
تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نام شاہنشہ بلند مقام
قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ
مظہر ذوالجلال والاکرام
شہسوار طریقۂ انصاف
نو بہار حدیقۂ اسلام
جس کا ہر فعل صورت اعجاز
جس کا ہر قول معنی الہام
بزم میں میزبان قیصر و جم
رزم میں اوستاد رستم و سام
اے ترا لطف زندگی افزا
اے ترا عہد فرخی فرجام
چشم بد دور خسروانہ شکوہ
لوحش اللہ عارفانہ کلام
جاں نثاروں میں تیرے قیصر روم
جرعہ خواروں میں تیرے مرشد جام
وارث ملک جانتے ہیں تجھے
ایرج و تور و خسرو و بہرام
زور بازو میں مانتے ہیں تجھے
گیو و گودرز و بیژن و رہام
مرحبا موشگافیٔ ناوک
آفریں آب داریٔ صمصام
تیر کو تیرے تیر غیر ہدف
تیغ کو تیری تیغ خصم نیام
رعد کا کر رہی ہے کیا دم بند
برق کو دے رہا ہے کیا الزام
تیرے فیل گراں جسد کی صدا
تیرے رخش سبک عناں کا خرام
فن صورت گری میں تیرا گزر
گر نہ رکھتا ہو دست گاہ تمام
اس کے مضروب کے سر و تن سے
کیوں نمایاں ہو صورت ادغام
جب ازل میں رقم پذیر ہوئے
صفحہ ہائے لیالی و ایام
اور ان اوراق میں بہ کلک قضا
مجملاً مندرج ہوئے احکام
لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کش
لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام
آسماں کو کہا گیا کہ کہیں
گنبد تیز گرد نیلی فام
حکم ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف کو دام
آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضع سوز و نم و رم و آرام
مہر رخشاں کا نام خسرو روز
ماہ تاباں کا اسم شحنۂ شام
تیری توقیع سلطنت کو بھی
دی بدستور صورت ارقام
کاتب حکم نے بموجب حکم
اس رقم کو دیا طراز دوام
ہے ازل سے روائیٔ آغاز
ہو ابد تک رسائیٔ انجام