ہے چرخ جب سے ابلق ایّام پر سوار (تضحیک روزگار) – سودا
ہے چرخ جب سے ابلق ایّام پر سوار
رکھتا نہیں ہے دست عناں کا بیک قرار
جن کے طویلے بیچ کوئی دن کی بات ہے
ہر گز عراقی و عربی کا نہ تھا شمار
اب دیکھتا ہوں میں کہ زمانے کے ہاتھ سے
موچی سے کفشِ پا کو گٹھاتے ہیں وہ اُدھار
تنہا ولے نہ دہر سے عالم خراب ہے
خسّت سے اکثروں نے اٹھایا ہے ننگ و عار
ہیں گے چنانچہ ایک ہمارے بھی مہرباں
پاوے سزا جو ان کا کوئی نام لے نہار
نوکر ہیں سو روپے کے دنائت کی راہ سے
گھوڑا رکھیں ہیں ایک سو اتنا خراب و خوار
نہ دانہ و نہ کاہ نہ تیمار و نے سئیس
رکھتا ہو جیسے اسپِ گلی طفل شیر خوار
ناطاقتی کو اس کی کہاں تک کروں بیاں
فاقوں کا اس کے اب میں کہاں تک کروں شمار
مانند نقش نعل زمیں سے بجز فنا
ہر گز نہ اٹھ سکے وہ اگر بیٹھے ایک بار
اس مرتبہ کو بھوک سے پہنچا ہے اس کا حال
کرتا ہے راکب اس کا جو بازار میں گزار
قصّاب پوچھتا ہے مجھے کب کروگے یاد
امیدوار ہم بھی ہیں کہتے ہیں یوں چمار
جس دن سے اس قصائی کے کھونٹے بندھا ہے وہ
گزرے ہے اس نمط اسے ہر لیل و ہر نہار
ہر رات اختروں کے تئیں دانہ بوجھ کر
دیکھے ہے آسماں کی طرج ہوکے بے قرار
تنکا اگر پڑا کہیں دیکھے ہے گھاس کا
چوکے کو آنکھیں موند کے دیتا ہے وہ پسار
خطِّ شعاع کو وہ سمجھ دستۂ گیاہ
ہر دم زمیں پہ آپ کو پٹکے ہے باربار
پیدا ہوئی ہے تس پہ اگن باؤ اس قدر
ہر گز دروغ اس کو تو مت جان زینہار
گزرے وہ جس طرف سے کبھو اُس طرف نسیم
بادِ سموم ہووے ووہیں گر کرے گزار
دیکھے ہے جب وہ توبڑہ اور تھان کی طرف
کھودے ہے اپنے سُم سے کنویں ٹاپیں مارمار
فاقوں سے ہنہنانے کی طاقت نہیں رہی
گھوڑی کو دیکھتا ہے تو پادے ہے بار بار
ہے اس قدر ضعیف کہ اڑ جائے باد سے
میخیں گر اس کے تھان کی ہوویں نہ استوار
نے استخواں نہ گوشت نہ کچھ اس کے پیٹ میں
دھونکے ہے دم کو اپنے کہ جوں کھال کو لوہار
سمجھا نہ کائے یہ کہ ہو ابلق ہے یا سرنگ
خارشت سے زبسکہ ہے مجروح بے شمار
یہ حال اس کا دیکھ غرض یوں کہے ہے خلق
چنگل سے موذی کے تو چھڑا اس کو کردگار
لے جاویں چور یا مرے یا ہو کہیں یہ گم
اس تین بات سے کوئی بھی ہووے آشکار
تنہا نہ اس کے غم سے دل تنگ زین کا
خوگیر کا بھی سینہ جو دیکھے تو ہے فگار
القصہ ایک دن مجھے کچھ کام تھا ضرور
آیا یہ دل میں جائے گھوڑے پہ ہو سوار
رہتے تھے گھر کے پاس قضارا وہ آشنا
مشہور تھا جنہوں کنے وہ اسپ نابکار
خدمت میں ان کی میں نے کیا جا کے التماس
گھوڑا مجھے سواری کو اپنا دو مستعار
فرمایا تب انہوں نے کہ اے مہربانِ من
ایسے ہزار گھوڑے کروں تم پہ میں نثار
لیکن کسی کے چڑھنے کےلائق نہیں یہ اسپ
یہ واقعی ہے اس کو نہ جانو گے انکسار
صورت کا جس کی دیکھنا ہے گور خر کو ننگ
سیرت سے جس کی نت ہے سگِ خشمگیں کو عار
بد رنگ جیسے لید ہے بدبو ہے جوں پشاب
بد یمن یہ کہ اصطبل اوجڑ کرے ہزار
مانند مینچو کے لکدزن ہے تھان پر
لاجنب وہ زمیں سے ہو جوں میں استوار
حشری ہے اس قدر کہ بحشر اس کی پشت پر
دجّال اپنے منہ کو سیہ کرکے ہو سوار
اتنا وہ سرنگوں ہے کہ سب اُڑ گئے ہیں دانت
جبڑے پہ بسکہ ٹھوکروں کی نت پڑے ہے مار
ہے پیر اس قدر کہ جو بتلائے اس کا سن
پہلے وہ لیکے ریگِ بیاباں کرے شمار
لیکن مجھے زروئے تواریخ یاد ہے
شیطان اسی پہ نکلا تھا جنت سے ہو سوار
کم رو ہے اس قدر کہ اگر اس کے فعل کا
لوہا گلا کے تیغ بنا دے کوئی لوہار
ہے دل کو یہ یقین کہ تیغ روزِ جنگ
رستم کے ہاتھ سے نہ چلے وقتِ کارزار
مانندِ اسپِ خانۂ شطرنج اپنے پاؤں
جز دست غیر کے نہیں چلتا ہے زینہار
اک دن گیا تھا مانگے یہ گھوڑا برات میں
دولھا جو بیاہنے کو چلا اس پہ ہو سوار
سبزے سے خط سیاہ و سیہ سے ہوا سفید
تھا سر و سا جو قد سو ہوا شاخِ باردار
پہنچا غرض عروس کےگھر تک وہ نوجوان
شیخوخیت کےدرجے سے کر اس طرف گزار
مٹھا تو اس قدر ہے وہ جو کچھ کہ تم سنا
لیکن اک اور دن کی حقیقت کہوں میں یار
دہلی تک آن پہنہچا تھا جس دن کہ مرہٹہ
مجھ سے کہا نقیب نے آکر ہے وقتِ کار
مدت سے کوڑیوں کو اڑایا ہے گھر میں بیٹھ
ہو کر سوار اب کرو میداں میں کارزار
ناچار ہوکے تب تو بندھایا میں اس پہ زیں
ہتھیار باندھ کر میں ہوا جا کے پھر سوار
جس شکل سے سوار تھا اس دن میں کیا کہوں
دشمن کو بھی خدا نہ کرے یون ذلیل و خوار
چابک تھے دونوں ہاتھ میں پکڑی تھی منہ میں باگ
تِک تِک سے پاشنہ کی مرے پانوں تھے فگار
آگے سے تو بڑا اسے دکھلائے تھا سئیس
سمجھے نقیب ہانکے تھا لاٹھی سے مار مار
ہر گز وہ اس طرح بھی نہ لاتا تھا رو براہ
ہلتا تھا زمین سے مانند کوہسار
اس مضحکے کو دیکھ ہوئے جمع خاص و عام
اکثر مدبّروں میں سے کہتے تھے یوں پکار
پہئے اسے لگاؤ کہ تا ہوے یہ رواں
یا بادبان باندھ پَون کے دو اختیار
میں کیا کہوں غرض کہ ہر اک اسکی شکل دیکھ
تیغِ زبان سے کاٹ کے کرتا تھا گل نثار
کہتا تھا کوئی ہے بزِ کوہی نہیں یہ اسپ
کہتا تھا کوئی ہوگا ولایت کا یہ حمار
پوچھے تھا کوئی مجھ سے ہوا تجھ سے کیا گناہ
کتوال نے گدھے پہ تجھے کیوں کیا سوار
کہنے لگا پھر آکے اس اجماع میں کوئی
مرکب نہ یہ گدھا نہ یہ راکب گناہ گار
سمجھوں ہوں میں تو یہ کہ سپاہی کے بھیس میں
ڈائن چلی ہے سیر کو ہو چرخ پر سوار
اس مخمصہ میں تھا ہی کہ ناگاہ ایک اور
فتنے کو آسماں نے کیا مجھ سے پھر دوچار
دھوبی کمھار کے گدھے اس دن ہوئے تھے گم
اس ماجرے کو سُن کیا دونوں نے واں گزار
ہر اک نے اس کو اپنے گدھے کا خیال کر
پکڑے تھا دھوبی کان تو کھینچے تھا دُم کمھار
دریائے کشمکش ہوا اس آن موج زن
تھا عنقریب ڈوبئے خفت سے ایک بار
بدپشمی اس کی دیکھ کے کر خرس کا خیال
لڑکے بھی واں تھے جمع تماشے کو بے شمار
رکھتا تھا کوئی لاکے سپاری کو منھ کے بیچ
مو اس کے تن سے کوئی اکھاڑے تھا بار بار
کہتا تھا کوئی مجھ سے کہ تو مجھ کو بھی چڑھا
دوں گا ٹکا تجھے میں ہے نو چندا ایتوار
کتّے بھی بھونکتے تھے کھڑے اس کے گرد و پیش
ساتھ اس سمندر خرس تما کے ہو چشم چار
اس وقت میں نے اپنی مصیبت پہ کر نظر
کہنے گا خدا سے یہ رو رو کے زار زار
جھگڑوں میں دھوبیوں سے کہ لڑکوں کو دوں جواب
کتوں سے یا لڑوں کہ مروں اپنا پیٹ مار
بارے دعا ہوئی مری اس وقت مستجاب
واں سے بہر نمط کیا جنگاہ تک گزار
دستِ دعا اٹھا کے میں پھر وقت جنگ کے
کہنے لگا جناب الہی میں یوں پکار
پہلی ہی گولی چھوٹتے اس گھوڑے کے لگے
ایسا لگے نہ تیر کہ ہووے نہ تن سے پار
یہ کہ کے میں خدا سے ہوا مستعد بہ جنگ
اتنے میں مرہٹہ بھی مجھ سے آ دوچار
گھوڑا تھا بسکہ لاغر و پست و ضعیف و خشک
کرتا تھا یوں خفیف مجھے وقت کارزار
جاتا تھا میں ڈپٹ کے جب اس کو حریف پر
دوڑوں تھا اپنے پاؤں سے جو طفل نے سوار
جب دیکھا میں کہ جنگ کی یاں یہ بندھی سے شکل
لے جوتیوں کو ہاتھ میں گھوڑا بغل میں مار
دھر دھمکا واں سے لڑتا ہوا شہر کی طرف
القصہ میں نے آن کے گھر میں کیا قرار
گھوڑے مرے کی شکل یہ ہے تم نے جو سنی
اس پر بھی دل میں آئے تو اب ہوجئے سوار
سن کر تب ان سے میں نے یہ قصہ دیا جواب
اتنا بھی جھوٹ بولنا کیا ہے ضرور یار
گفتن ہمیں بس است کہ اسپ من ابلق است
سمجھوں گا دل میں اپنے اگر ہوں میں ہوشیار
سودا نے تب قصیدہ کہا سن یہ ماجرا
ہے نام اس قصیدہ کا تضحیکِ روزگار