نظم

ایک لڑکا – اختر الایمان

Loading

دیار شرق کی آبادیوں کے اونچے ٹیلوں پر

کبھی آموں کے باغوں میں کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر

کبھی جھیلوں کے پانی میں کبھی بستی کی گلیوں میں

کبھی کچھ نیم عریاں کم سنوں کی رنگ رلیوں میں

سحر دم جھٹپٹے کے وقت راتوں کے اندھیرے میں

کبھی میلوں میں ناٹک ٹولیوں میں ان کے ڈیرے میں

تعاقب میں کبھی گم تتلیوں کے سونی راہوں میں

کبھی ننھے پرندوں کی نہفتہ خواب گاہوں میں

برہنہ پاؤں جلتی ریت یخ بستہ ہواؤں میں

گریزاں بستیوں سے مدرسوں سے خانقاہوں میں

کبھی ہم سن حسینوں میں بہت خوش کام و دل رفتہ

کبھی پیچاں بگولہ ساں کبھی جیوں چشم خوں بستہ

ہوا میں تیرتا خوابوں میں بادل کی طرح اڑتا

پرندوں کی طرح شاخوں میں چھپ کر جھولتا مڑتا

مجھے اک لڑکا آوارہ منش آزاد سیلانی

مجھے اک لڑکا جیسے تند چشموں کا رواں پانی

نظر آتا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ بلائے جاں

مرا ہم زاد ہے ہر گام پر ہر موڑ پر جولاں

اسے ہم راہ پاتا ہوں یہ سائے کی طرح میرا

تعاقب کر رہا ہے جیسے میں مفرور ملزم ہوں

یہ مجھ سے پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو

Our Visitor

0 1 1 1 7 0
Users Today : 10
Users Yesterday : 20
Users Last 7 days : 127
Users Last 30 days : 733
Users This Month : 420
Users This Year : 5916
Total Users : 11170
Views Today : 16
Views Yesterday : 46
Views Last 7 days : 281
Views Last 30 days : 1505
Views This Month : 870
Views This Year : 11397
Total views : 27402
Who's Online : 0
Your IP Address : 18.117.151.127
Server Time : 2024-12-22
error: Content is protected !!