فہرست کتاب کی مکمل پی ڈی ایف یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں 1۔ حمد حفیظ جالندھری (نظم) 2۔ آم کی گٹھلی
Read More
فہرست کتاب کی مکمل پی ڈی ایف یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں 1۔ دعا محمد شفیع الدین نیر (نظم) 2۔ چڑیا
Read More
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا
اتفاقاً ایک پودا اور گھاس
باغ میں دونوں کھڑے ہیں پاس پاس
گھاس کہتی ہے کہ اے میرے رفیق
کیا انوکھا اس جہاں کا ہے طریق
وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا
گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اک سنسناہٹ ہوئی
آنکھوں کا ہے تارا بھارت
دل کا اپنے سہارا بھارت
نیارا سب سے ہمارا بھارت
بھارت پیارا بھارت پیارا
اک دن جو بہر فاتحہ اک بنتِ مہر و ماہ
پہنچی نظر جھکائے ہوئے سوئے خانقاہ
زُہاد نے اٹھائی جھجکتے ہوئے نگاہ
ہونٹوں میں دب کے ٹوٹ گئی ضرب لا اِلہ
برپا ضمیر زہد میں کہرام ہو گیا
ایماں، دلوں میں لرزہ بہ اندام ہو گیا
ولی دکنی کا تاریخ کہ اس دور سے تعلق ہے جب دکنی کلچر کی تہذیبی اور ادبی اکائی عالمگیر کی فتح دکن کی وجہ سے متاثر ہو چکی تھی اور اس کی وجہ سے پھر ایک بار شمال اور جنوب کے فاصلے گھٹ گئے تھے۔ اہل شمال دکن کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے تھے اور شمال اور جنوب کی زبان آپسی لین دین میں شروع ہو چکی تھی۔ ولی نے دکن کی ادبی روایت کو شمال کی زبان اور فارسی روایت سے قریب تر کر کے ایک ایسا رنگ پیدا کیا جو سارے ہندوستان کے لیے قابل تقلید بن گیا۔ولی سے پہلے شمالی ہند کے اہل علم اردو کو بول چال کی زبان کے طور پر تو استعمال کرتے تھے لیکن شعر و ادب کے لیے فارسی ہی کو ترجیح دیتے تھے۔ کبھی کبھی اردو میں بھی شعر موضوع کر لیا کرتے تھے۔ شمالی ہند کے شاعروں نے براہ راست ولی کا اثر قبول کیا۔ اہل شمال کو احساس ہوا کہ اردو جسے وہ کم مایہ زبان سمجھتے ہیں اس میں اتنی گہرائی گیرائی اور قوت اظہار موجود ہے کہ اس میں ادب تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ دیوان ولی کے دلی پہنچنے کے بعد شمالی ہند میں باقاعدہ اردو میں شعر گوئی کا آغاز ہوا۔
Read More