حیدر علی آتش – تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست
تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست
مثل تصویر نہالی میں ہوں ہم پہلوئے دوست
چہرۂ رنگیں کوئی دیوان رنگیں ہے مگر
حسن مطلع ہیں مسیں مطلع ہے صاف ابروئے دوست
ہجر کی شب ہو چکی روز قیامت سے دراز
دوش سے نیچے نہیں اترے ابھی گیسوئے دوست
دور کر دل کی کدورت محو ہو دیدار کا
آئنے کو سینہ صافی نے دکھایا روئے دوست
واہ رے شانے کی قسمت کس کو یہ معلوم تھا
پنجۂ شل سے کھلیں گے عقدہ ہائے موئے دوست
داغ دل پر خیر گزری تو غنیمت جانیے
دشمن جاں ہیں جو آنکھیں دیکھتی ہیں سوئے دوست
دو مریں گے زخم کاری سے تو حسرت سے ہزار
چار تلواروں میں شل ہو جائے گا بازوئے دوست
فرش گل بستر تھا اپنا خاک پر سوتے ہیں اب
خشت زیر سر نہیں یا تکیہ تھا زانوئے دوست
یاد کر کے اپنی بربادی کو رو دیتے ہیں ہم
جب اڑاتی ہے ہوائے تند خاک کوئے دوست
اس بلائے جاں سے آتشؔ دیکھیے کیوں کر بنے
دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست