غزل

غزل – خلیل الرحمن اعظمی

Loading

میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں

سایہ سایہ پکارتا ہوں

سونا ہوں کرید کر تو دیکھو

مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں

لے مجھ کو سنبھال گردش وقت

ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں

یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی

در اصل میں غم سے آشنا ہوں

صحبت میں گلوں کی میں بھی رہ کر

کانٹوں کی زباں سمجھ گیا ہوں

دشمن ہو کوئی کہ دوست میرا

ہر ایک کے حق میں میں دعا ہوں

کیوں آب حیات کو میں ترسوں

میں زہر حیات پی چکا ہوں

تقدیر جنوں پہ چپ رہا میں

تعبیر جنوں پہ رو رہا ہوں

ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش

ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں

Our Visitor

0 1 2 9 3 9
Users Today : 8
Users Yesterday : 20
Users Last 7 days : 140
Users Last 30 days : 447
Users This Month : 303
Users This Year : 1630
Total Users : 12939
Views Today : 10
Views Yesterday : 66
Views Last 7 days : 257
Views Last 30 days : 761
Views This Month : 511
Views This Year : 2710
Total views : 30334
Who's Online : 0
Your IP Address : 3.14.135.79
Server Time : 2025-04-18
error: Content is protected !!