غزل – خلیل الرحمن اعظمی
میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں
سونا ہوں کرید کر تو دیکھو
مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں
لے مجھ کو سنبھال گردش وقت
ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں
یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی
در اصل میں غم سے آشنا ہوں
صحبت میں گلوں کی میں بھی رہ کر
کانٹوں کی زباں سمجھ گیا ہوں
دشمن ہو کوئی کہ دوست میرا
ہر ایک کے حق میں میں دعا ہوں
کیوں آب حیات کو میں ترسوں
میں زہر حیات پی چکا ہوں
تقدیر جنوں پہ چپ رہا میں
تعبیر جنوں پہ رو رہا ہوں
ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں