نظم

ذوق و شوق – علامہ اقبال

Loading

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں

چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں!

حسن ازل کی ہے نمود چاک ہے پردۂ وجود

دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں!

سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب!

کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں!

گرد سے پاک ہے ہوا برگ نخیل دھل گئے

ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں

آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی

اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی

کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات

کہنہ ہے بزم کائنات تازہ ہیں میرے واردات!

کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں

بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات!

ذکر عرب کے سوز میں، فکر عجم کے ساز میں

نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات!

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات!

صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق!

معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق!

آیۂ کائنات کا معنئ دیر یاب تو!

نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو!

جلوتیان مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق

جلوتیان میکدہ کم طلب و تہی کدو!

میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ

میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو!

باد صبا کی موج سے نشو و نمائے خار و خس!

میرے نفس کی موج سے نشو و نمائے آرزو!

خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش

ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو!

فرصت کشمکش میں ایں دل بے قرار را

یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را

لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب!

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب!

عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب!

شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!

فقر جنیدؔ و بایزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب !میرا سجود بھی حجاب!

تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے

عقل، غیاب و جستجو! عشق، حضور و اضطراب!

تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے!

طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے!

تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب

مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم تخیل بے رطب!

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا!

عشق تمام مصطفی! عقل تمام بو لہب!

گاہ بحیلہ می برد، گاہ بزور می کشد

عشق کی ابتدا عجب عشق کی انتہا عجب!

عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق

وصل میں مرگ آرزو! ہجر میں لذت طلب!

عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا

گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب!

گرمئ آرزو فراق! شورش ہائے و ہو فراق!

موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق!

Our Visitor

0 0 9 8 7 8
Users Today : 0
Users Yesterday : 10
Users Last 7 days : 93
Users Last 30 days : 425
Users This Month : 0
Users This Year : 4624
Total Users : 9878
Views Today :
Views Yesterday : 21
Views Last 7 days : 208
Views Last 30 days : 782
Views This Month :
Views This Year : 8660
Total views : 24665
Who's Online : 0
Your IP Address : 18.118.128.205
Server Time : 2024-11-01