زنجیر – ن م راشد
گوشۂ زنجیر میں
اک نئی جنبش ہویدا ہو چلی
سنگ خارا ہی سہی خار مغیلاں ہی سہی
دشمن جاں دشمن جاں ہی سہی
دوست سے دست و گریباں ہی سہی
یہ بھی تو شبنم نہیں
یہ بھی تو مخمل نہیں دیبا نہیں ریشم نہیں
ہر جگہ پھر سینۂ نخچیر میں
اک نیا ارماں نئی امید پیدا ہو چلی
حجلۂ سیمیں سے تو بھی پیلۂ ریشم نکل
وہ حسیں اور دور افتادہ فرنگی عورتیں
تو نے جن کے حسن روز افزوں کی زینت کے لئے
سالہا بے دست و پا ہو کر بنے ہیں تار ہائے سیم و زر
ان کے مردوں کے لئے بھی آج اک سنگین جال
ہو سکے تو اپنے پیکر سے نکال
شکر ہے دنبالۂ زنجیر میں
اک نئی جنبش نئی لرزش ہویدا ہو چلی
کوہساروں ریگ زاروں سے صدا آنے لگی
ظلم پروردہ غلامو بھاگ جاؤ
پردۂ شبگیر میں اپنے سلاسل توڑ کر
چار سو چھائے ہوئے ظلمات کو اب چیر جاؤ
اور اس ہنگام باد آور کو
حیلۂ شب خوں بناؤ