غزل

حیدر علی آتش – تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست

Loading

تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست

مثل تصویر نہالی میں ہوں ہم پہلوئے دوست

چہرۂ رنگیں کوئی دیوان رنگیں ہے مگر

حسن مطلع ہیں مسیں مطلع ہے صاف ابروئے دوست

ہجر کی شب ہو چکی روز قیامت سے دراز

دوش سے نیچے نہیں اترے ابھی گیسوئے دوست

دور کر دل کی کدورت محو ہو دیدار کا

آئنے کو سینہ صافی نے دکھایا روئے دوست

واہ رے شانے کی قسمت کس کو یہ معلوم تھا

پنجۂ شل سے کھلیں گے عقدہ ہائے موئے دوست

داغ دل پر خیر گزری تو غنیمت جانیے

دشمن جاں ہیں جو آنکھیں دیکھتی ہیں سوئے دوست

دو مریں گے زخم کاری سے تو حسرت سے ہزار

چار تلواروں میں شل ہو جائے گا بازوئے دوست

فرش گل بستر تھا اپنا خاک پر سوتے ہیں اب

خشت زیر سر نہیں یا تکیہ تھا زانوئے دوست

یاد کر کے اپنی بربادی کو رو دیتے ہیں ہم

جب اڑاتی ہے ہوائے تند خاک کوئے دوست

اس بلائے جاں سے آتشؔ دیکھیے کیوں کر بنے

دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

Our Visitor

0 0 9 8 7 8
Users Today : 0
Users Yesterday : 10
Users Last 7 days : 93
Users Last 30 days : 425
Users This Month : 0
Users This Year : 4624
Total Users : 9878
Views Today :
Views Yesterday : 21
Views Last 7 days : 208
Views Last 30 days : 782
Views This Month :
Views This Year : 8660
Total views : 24665
Who's Online : 0
Your IP Address : 3.144.254.245
Server Time : 2024-11-01