مومن خان مومن
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
کہیں صحرا بھی گھر نہ ہو جائے
رشک پیغام ہے عناں کش دل
نامہ بر راہبر نہ ہو جائے
دیکھو مت دیکھیو کہ آئینہ
غش تمہیں دیکھ کر نہ ہو جائے
ہجر پردہ نشیں میں مرتے ہیں
زندگی پردۂ در نہ ہو جائے
کثرت سجدہ سے وہ نقش قدم
کہیں پامال سر نہ ہو جائے
میرے تغییر رنگ کو مت دیکھ
تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے
میرے آنسو نہ پونچھنا دیکھو
کہیں دامان تر نہ ہو جائے
بات ناصح سے کرتے ڈرتا ہوں
کہ فغاں بے اثر نہ ہو جائے
اے قیامت نہ آئیو جب تک
وہ مری گور پر نہ ہو جائے
مانع ظلم ہے تغافل یار
بخت بد کو خبر نہ ہو جائے
غیر سے بے حجاب ملتے ہو
شب عاشق سحر نہ ہو جائے
رشک دشمن کا فائدہ معلوم
مفت جی کا ضرر نہ ہو جائے
اے دل آہستہ آہ تاب شکن
دیکھ ٹکڑے جگر نہ ہو جائے
مومنؔ ایماں قبول دل سے مجھے
وہ بت آزردہ گر نہ ہو جائے