غزل

مومن خان مومن

Loading

صبر وحشت اثر نہ ہو جائے

کہیں صحرا بھی گھر نہ ہو جائے

رشک پیغام ہے عناں کش دل

نامہ بر راہبر نہ ہو جائے

دیکھو مت دیکھیو کہ آئینہ

غش تمہیں دیکھ کر نہ ہو جائے

ہجر پردہ نشیں میں مرتے ہیں

زندگی پردۂ در نہ ہو جائے

کثرت سجدہ سے وہ نقش قدم

کہیں پامال سر نہ ہو جائے

میرے تغییر رنگ کو مت دیکھ

تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے

میرے آنسو نہ پونچھنا دیکھو

کہیں دامان تر نہ ہو جائے

بات ناصح سے کرتے ڈرتا ہوں

کہ فغاں بے اثر نہ ہو جائے

اے قیامت نہ آئیو جب تک

وہ مری گور پر نہ ہو جائے

مانع ظلم ہے تغافل یار

بخت بد کو خبر نہ ہو جائے

غیر سے بے حجاب ملتے ہو

شب عاشق سحر نہ ہو جائے

رشک دشمن کا فائدہ معلوم

مفت جی کا ضرر نہ ہو جائے

اے دل آہستہ آہ تاب شکن

دیکھ ٹکڑے جگر نہ ہو جائے

مومنؔ ایماں قبول دل سے مجھے

وہ بت آزردہ گر نہ ہو جائے

Our Visitor

0 1 1 1 6 3
Users Today : 3
Users Yesterday : 20
Users Last 7 days : 135
Users Last 30 days : 766
Users This Month : 413
Users This Year : 5909
Total Users : 11163
Views Today : 3
Views Yesterday : 46
Views Last 7 days : 290
Views Last 30 days : 1622
Views This Month : 857
Views This Year : 11384
Total views : 27389
Who's Online : 0
Your IP Address : 51.222.253.13
Server Time : 2024-12-22
error: Content is protected !!