ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی – سودا
ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی
نہ ٹوٹی شیخ سے زنا رتسبیح سلیمانی
ہنر پیدا کر اول ترک کیجو تب لباس اپنا
نہو جون تیغ بے جوہر وگر نہ ننگ عریانی
فراہم زر کا کرنا باعث اندوہ دل ہووے
نہیں کچھ جمع سے غنچہ کو حاصل جز پریشانی
خوشامد کب کریں عالی طبیعت اہل دولت کی
نہ جھاڑے آستین کہکشاں شاہوں کی پیشانی
عروج دست ہمت کو نہیں کچھ قدر بیش و کم
سدا خورشید کی جگ پر مساوی ہے زرا فشانی
کرے ہے کلفت ایام ضائع قدر مردوں کی
ہوئی جب تیغ زنگ آلود کم جاتی ہے پہچانی
اکیلا ہو کے رہ دنیا میں گر جینا بہت چاہے
ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی
اذیت وصل مین دونی جدائی سے ہےعاشق کو
بہت رہتا ہے نالاں فصل گل میں مرغ بستانی
موقر جان ارباب ہنر کو بے لباسی میں
کہ ہو جو تیغ با جوہراسے عزت ہے عریانی
بہ رنگ کوہ رہ خاموش حرف ناسزا سن کر
کہ تابد گو صداے غیب سے کھینچے پشیمانی
یہ روشن ہے برنگ شمع ربط باد و آتش سے
موافق گرنہ ہوے دوست ہے وہ دشمن جانی
کرے ہے دہر زینت ظالموں پر تیرہ روزی کو
کہ زیب ترک چشم یار سرمہ ہے صفا ہائی
طلوع مہر ہو پامال حسرت آسمان اوپر
لکھوں گا بہر غزل گر اس زمین مین مطلع ثانی
مطلع ثانی
عجب ناداں ہیں وہ جن کو ہے عجب تاج سلطانی
فلک بال ہما کو پل میں سونپے ہے مگس رانی
نہیں معلوم ان نے خاک میں کیا کیا ملا دیکھا
کہ چشم نقش پا سے تا عدم نکلی نہ حیرانی
ہماری آہ تیرا دل نہ نرماوے تو یا قسمت
وگرنہ دیکھ آئینے کو پھتر ہوگئے پانی
تری زلفوں سے اپنی روسیاہی کہ نہیں سکتا
کہ ہے جمعیت خاطر مجھے ان کی پریشانی
زمانہ میں نہیں کھلتا ہے کار بستہ حیراں ہوں
گرہ غنچوں کی کھولے ہے صبا کیون کر بآسانی
جنوں کے ہاتھ سے سر تا قدم کا ہیدہ اتنا ہوں
کہ اعضا دیدۂ زنجیر کی کرتے ہیں مژگانی
نہ رکھا جگ میں رسم دوستی اندوہ روزی نے
مگر زانو سے اب باقی رہا ہے ربط پیشانی
سیہ بختی میں اے سودا نہیں طول سخن لازم
نمط خامے کے سر کٹوائے گی ایسی زباں دانی
سمجھ اے تا قباحت فہم کب تک یہ بیان ہوگا
اداے چین پیشانی و لطف زلف طولانی
خدا کے واسطے باز آ تو اب ملنے سے خوبان کے
نہیں ہے ان سے ہرگز فائدہ غیراز پشیمانی
نظر رکھنے سے حاصل ان کے چشم و زلف کے اوپر
مگر بیمار ہووے ضعف یا کھینچے پریشانی
نکال اس کفر کو دل سے کہ اب وہ وقت آیا ہے
برہمن کو صنم کرتا ہے تکلیف مسلمانی
زہے دین محمد پیروی میں اس کی جو ہوویں
رہے خاک قدم سے اس کی چشم عرش نورانی
ملک سجدہ نہ کرتے آدم خاکی کو گر اس کی
امانت دار نور احمدیﷺ ہوتی نہ پیشانی
اسی کو آدم و حوا کی خلقت سے کیا پیدا
مراد الفاظ سے معنی ہیں تا آیات قرآنی
خیال خلق گر اس کا شفیع کافراں ہووے
رکھیں بخشش کے سر منت یہودی اور نصرانی
زباں پر اس کے گزرے حرف جس جا گہ شفاعت کا
کرے واں ناز آمرزش پہ ہر یک فاسق و زانی
رکھا جب سے قدم مسند پر آ ان نے شریعت کا
کرے ہے موج بحر معدلت تب سے یہ طغیانی
اگر نقصان پر خس کے شرر کا ٹک ارادہ ہو
کرے کو آگ کے دو ہیں کرے غرق آن کر پانی
موافق گر نہ کرتا عدل اس کا آب و آتش کو
تو کوئی سنگ سے بندھتی تھی شکل لعل رمّانی
یہ کیا انصاف ہے یارب کہ طیر و وحش تک جگ میں
اس امن و عیش سے اپنی بسر اوقات لے جانی
پلے ہے آشیان میں باز کے بچہ کبوتر کا
شباں نے گرگ کو گلے کی سونپی ہے نگہ بانی
ہما آسا ہے پرداز ملخ اوج سعادت پر
کرے ہے مور چڑھ کر سینۂ دد پر سلیمانی
کھلے ہے غنچۂ گل باغ میں خاطر سے بلبل کی
جو اب اوراق جمعیت کو ہوتی ہے پریشانی
جہاں انصاف سے ہر گاہ اب معمور ہے اتنا
تو اس کے آگے ہوگی عدل کی کیا کچھ فراوانی
ہزار افسوس اے دل ہم نہ تھے اس وقت دنیا میں
وگر نہ کرتے یہ آنکھیں جمال اس کے سے نورانی
نہ ہونے سے جدا سایے کے اس قامت سے پیدا ہے
قیامت ہووے گا دلچسپ وہ محبوب سبحانی
جسے یہ صورت و سیرت کرامت حق نے کی ہووے
بجا ہے کہیے ایسے کو اگر اب یوسف ثانی
معاذاللہ یہ کیا لفظ بے موقع ہوا سرزد
جو اس کو پھر کہوں تو ہوؤں میں مردودِ مسلمانی
کدھر اب فہم ناقص لے گیا مجھ کو نہ یہ سمجھا
کہ ہو مہر الوہیت ہے یہ ہے ماہ کنعانی
جو صورت اس کی ہے لاریب وہ ہے صورت ایزد
جو معنی اس میں ہیں بے شک وہ ہیں معنی ربانی
حدیث من رآنی دال ہے اس گفتگو اوپر
کہ دیکھا جس نے اس کو ان نے دیکھی شکل یزدانی
غرض مشکل ہمیں ہوتی کہ پیدا کرکے ایسے کو
خدا گر یہ نہ فرماتا نہیں کوئی مرا ثانی
بس آگے مت چل اے سودا میں دیکھا فہم کو تیرے
کر استغفار اس منہ سے اب ویسے کی ثنا خوانی