روٹیاں – نظیر اکبرآبادی
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور پالا برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
چلا غم ٹھونک اچھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
آ دھمکے عیش و طرب کیا کیا جب حسن دکھایا ہولی نے
ہر آن خوشی کی دھوم ہوئی یوں لطف جتایا ہولی نے
ہر خاطر کو خورسند کیا ہر دل کو لبھایا ہولی نے
دف رنگیں نقش سنہری کا جس وقت بجایا ہولی نے
بازار گلی اور کوچوں میں غل شور مچایا ہولی نے
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں