غزل

میر درد

Loading

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے

آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے

میں وہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے

نقش قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے

اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زینہار

اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے

یارب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں

دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے

گو بحث کر کے بات بٹھائی بھی کیا حصول

دل سے اٹھا غلاف اگر تو اٹھا سکے

اطفائے نار عشق نہ ہو آب اشک سے

یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

مست شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر

اے دردؔ چاہے لائے بہ خود پر نہ لا سکے

Our Visitor

0 1 3 8 9 3
Users Today : 16
Users Yesterday : 23
Users Last 7 days : 194
Users Last 30 days : 719
Users This Month : 16
Users This Year : 2584
Total Users : 13893
Views Today : 44
Views Yesterday : 102
Views Last 7 days : 530
Views Last 30 days : 2106
Views This Month : 44
Views This Year : 5275
Total views : 32899
Who's Online : 0
Your IP Address : 216.73.216.236
Server Time : 2025-06-01
error: Content is protected !!