نظم

البیلی صبح – جوش ملیح آبادی

Loading

نظر جھکائے عروس فطرت جبیں سے زلفیں ہٹا رہی ہے

سحر کا تارا ہے زلزلے میں افق کی لو تھرتھرا رہی ہے

روش روش نغمۂ طرب ہے چمن چمن جشن رنگ و بو ہے

طیور شاخوں پہ ہیں غزل خواں کلی کلی گنگنا رہی ہے

ستارۂ صبح کی رسیلی جھپکتی آنکھوں میں ہیں فسانے

نگار مہتاب کی نشیلی نگاہ جادو جگا رہی ہے

طیور بزم سحر کے مطرب لچکتی شاخوں پہ گا رہے ہیں

نسیم فردوس کی سہیلی گلوں کو جھولا جھلا رہی ہے

کلی پہ بیلے کی کس ادا سے پڑا ہے شبنم کا ایک موتی

نہیں یہ ہیرے کی کیل پہنے کوئی پری مسکرا رہی ہے

سحر کو مد نظر ہیں کتنی رعایتیں چشم خوں فشاں کی

ہوا بیاباں سے آنے والی لہو میں سرخی بڑھا رہی ہے

شلوکا پہنے ہوئے گلابی ہر اک سبک پنکھڑی چمن میں

رنگی ہوئی سرخ اوڑھنی کا ہوا میں پلو سکھا رہی ہے

فلک پہ اس طرح چھپ رہے ہیں ہلال کے گرد و پیش تارے

کہ جیسے کوئی نئی نویلی جبیں سے افشاں چھڑا رہی ہے

کھٹک یہ کیوں دل میں ہو چلی پھر چٹکتی کلیو؟ ذرا ٹھہرنا

ہوائے گلشن کی نرم رو میں یہ کسی کی آواز آ رہی ہے؟

Our Visitor

0 1 2 7 9 9
Users Today : 12
Users Yesterday : 16
Users Last 7 days : 137
Users Last 30 days : 437
Users This Month : 163
Users This Year : 1490
Total Users : 12799
Views Today : 19
Views Yesterday : 25
Views Last 7 days : 212
Views Last 30 days : 701
Views This Month : 254
Views This Year : 2453
Total views : 30077
Who's Online : 0
Your IP Address : 3.129.17.245
Server Time : 2025-04-10
error: Content is protected !!