آدمی نامہ – نظیر اکبر آبادی
دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ابدال، قطب و غوث، ولی آدمی ہوئے
منکر بھی آدمی ہوئے اور کفر کے بھرے
کیا کیا کرشمے کشف و کرامات کے لیے
حتٰی کہ اپنے زہد و ریاضت کے زور سے
خالق سے جا ملا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا
شداد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا برملا
یہ بات ہے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا
یاں تک جو ہو چکا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
کل آدمی کا حسن و قبح میں ہے یاں ظہور
شیطاں بھی آدمی ہے جو کرتا ہے مکر و زور
اور ہادی رہنما ہے سو ہے وہ بھی آدمی
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نمازیاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی پہ تیغ کو مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اتارے ہے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
اور سن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
چلتا ہے آدمی ہی مسافر ہو لے کے مال
اور آدمی ہی مارے ہے پھانسی گلے میں ڈال
یاں آدمی ہی صید ہے اور آدمی ہی جال
سچا بھی آدمی ہی نکلتا ہے میرے لال
اور جھوٹ کا بھرا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی ہی شادی ہے اور آدمی بیاہ
قاضی وکیل آدمی اور آدمی گواہ
تاشے بجاتے آدمی چلتے ہیں خواہ مخواہ
دوڑے ہیں آدمی ہی تو مشعل جلا کے راہ
اور بیاہنے چڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی نقیب ہو بولے ہے بار بار
اور آدمی ہی پیادے ہیں اور آدمی سوار
حقہ صراحی جوتیاں دوڑیں بغل میں مار
کاندھے پہ رکھ کے پالکی ہیں دوڑتے کہار
اور اس میں جو پڑا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
بیٹھے ہیں آدمی ہی دکانیں لگا لگا
اور آدمی ہی پھرتے ہیں رکھ سر پہ خونچا
کہتا ہے کوئی لو کوئی کہتا ہے لا رے لا
کس کس طرح کی بیچیں ہیں چیزیں بنا بنا
اور مول لے رہا ہے سو ہے وہ آدمی
طبلے مجیرے دائرے سارنگیاں بجا
گاتے ہیں آدمی ہی ہر اک طرح جا بجا
رنڈی بھی آدمی ہی نچاتے ہیں گت لگا
اور آدمی ہی ناچے ہیں اور دیکھ پھر مزا
جو ناچ دیکھتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی ہی لعل و جواہر میں بے بہا
اور آدمی ہی خاک سے بد تر ہے ہو گیا
کالا بھی آدمی ہے کہ الٹا ہے جوں توا
گورا بھی آدمی ہے کہ ٹکڑا ہے چاند سا
بد شکل بد نما ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اک آدمی ہیں جن کے یہ کچھ زرق برق ہیں
روپے کے جن کے پاؤں ہیں سونے کے فرق ہیں
جھمکے تمام غرب سے لے تا بہ شرق ہیں
کم خواب تاش شال دو شالوں میں غرق ہیں
اور چیتھڑوں لگا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
حیراں ہوں یارو دیکھو تو کیا یہ سوانگ ہے
اور آدمی ہی چور ہے اور آپی تھانگ ہے
ہے چھینا جھپٹی اور بانگ تانگ ہے
دیکھا تو آدمی ہی یہاں مثل رانگ ہے
فولاد سے گڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
مرنے میں آدمی ہی کفن کرتے ہیں تیار
نہلا دھلا اٹھاتے ہیں کاندھے پہ کر سوار
کلمہ بھی پڑھتے جاتے ہیں روتے ہیں زارزار
سب آدمی ہی کرتے ہیں مردے کے کاروبار
اور وہ جو مر گیا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اشراف اور کمینے سے لے شاہ تا وزیر
یہ آدمی ہی کرتے ہیں سب کار دل پذیر
یاں آدمی مرید ہے اور آدمی ہی پیر
اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی