آتشؔ
توڑ کر تار نگہ کا سلسلہ جاتا رہا
خاک ڈال آنکھوں میں میری قافلہ جاتا رہا
کون سے دن ہاتھ میں آیا مرے دامان یار
کب زمین و آسماں کا فاصلہ جاتا رہا
خار صحرا پر کسی نے تہمت دزدی نہ کی
پاؤں کا مجنوں کے کیا کیا آبلہ جاتا رہا
دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا
جب اٹھایا پاؤں آتشؔ مثل آواز جرس
کوسوں پیچھے چھوڑ کر میں قافلہ جاتا رہا