جبریل و ابلیس – علامہ اقبال
جبرئیل
ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو
ابلیس
سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو
جبرئیل
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو
ابلیس
آہ اے جبریل تو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو
جس کی نومیدی سے ہو سوز درون کائنات
اس کے حق میں تقنطو اچھا ہے یا لاتقنطوا
جبرئیل
کھو دیئے انکار سے تو نے مقامات بلند
چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو
ابلیس
ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے میں کہ تو
خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو