ولی کی غزل گوئی
ولی دکنی کا تاریخ کہ اس دور سے تعلق ہے جب دکنی کلچر کی تہذیبی اور ادبی اکائی عالمگیر کی فتح دکن کی وجہ سے متاثر ہو چکی تھی اور اس کی وجہ سے پھر ایک بار شمال اور جنوب کے فاصلے گھٹ گئے تھے۔ اہل شمال دکن کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے تھے اور شمال اور جنوب کی زبان آپسی لین دین میں شروع ہو چکی تھی۔ ولی نے دکن کی ادبی روایت کو شمال کی زبان اور فارسی روایت سے قریب تر کر کے ایک ایسا رنگ پیدا کیا جو سارے ہندوستان کے لیے قابل تقلید بن گیا۔ولی سے پہلے شمالی ہند کے اہل علم اردو کو بول چال کی زبان کے طور پر تو استعمال کرتے تھے لیکن شعر و ادب کے لیے فارسی ہی کو ترجیح دیتے تھے۔ کبھی کبھی اردو میں بھی شعر موضوع کر لیا کرتے تھے۔ شمالی ہند کے شاعروں نے براہ راست ولی کا اثر قبول کیا۔ اہل شمال کو احساس ہوا کہ اردو جسے وہ کم مایہ زبان سمجھتے ہیں اس میں اتنی گہرائی گیرائی اور قوت اظہار موجود ہے کہ اس میں ادب تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ دیوان ولی کے دلی پہنچنے کے بعد شمالی ہند میں باقاعدہ اردو میں شعر گوئی کا آغاز ہوا۔
کلیات ولی میں تقریبا تمام اصناف سخن پر مشتمل کلام ملتا ہے لیکن جس صنف نے انہیں شہرت عام و بقائے دوام بخشی وہ غزل ہے۔ کلیات میں غزل ہی کا حصہ زیادہ بھی ہے اور وقیع بھی۔ ادب میں مختلف اصناف مخصوص تہذیبی سماجی اور ذہنی اثرات کے تحت قبولیت اور شہرت حاصل کرتی ہیں۔ غزل بھی خاص تہذیبی حالات میں پیدا ہوئی لیکن اس صنف نے وقت کی تبدیلی کے ساتھ خود کو بھی بدل لیا ۔شاید اس نے سب سے زیادہ سیاسی سماجی تہذیبی اور ادبی انقلابات دیکھے۔ جب اور جہاں جیسی ضرورت ہوئی ویسی ہی شکل اس نے اختیار کر لی۔ گیتوں کی فضا میں گیتوں کی مدھر تا غزل نے اپنے میں سمولی، تصوف کا زور بڑھا تو اسی کو اپنا خاص رنگ بنا لیا، داخلیت کا اظہار ہوا تو دل سے نکلی اور دل میں اتر گئی، خارجیت کا چلن ہوا تو سارے بندھن توڑ ڈالے، سماجی اور تہذیبی تبدیلی کے ساتھ وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے غزل اپنے دامن کو وسیع کرتی گئی۔ مختلف مضام مضامین اس میں جگہ پاتے گئے۔ فلسفیانہ مضامین کو بھی جگہ ملی، صوفیانہ خیالات بھی آئے، الم روزگار اور فکر معاش بھی، زندگی کا شکوہ بھی اور شادمانی کا ذکر بھی، موضوعات کی اسی رنگا رنگی اور طرز ادا کے اس نشیب و فراز کے باوجود غزل کا موضوع بنیادی طور پر محبت ہی رہا۔ ولی کی غزلوں میں ہمیں مندرجہ بالا تمام رنگ کہیں گہرے اور کہیں مدھم نظر آتے ہیں۔ ولی ایک بلند پایا غزل گو شاعر تھے۔ ان کی عظمت کا اعتراف شمالی ہند کے کئی بڑے شاعروں نے کیا ہے۔ حاتم لکھتے ہیں
حاتم یہ فن شعر میں کچھ تو بھی کم نہیں
لیکن ولی، ولی ہے جہاں میں سخن کے بیچ
ابرو نے کہا
ابرو شعر ہے ترا اعجاز
پر ولی کا سخن قیامت ہے
میر تقی میر کا کہنا ہے
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
ولی کے کلام میں بلا کی رنگینی اور دلکشی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی بیان کرتے ہیں اس کا براہ راست تعلق ان کے جذبات و احساسات اور تجربات سے ہوتا ہے۔ ان کے اکثر و بیشتر اشعار ان کی دل پر گزری ہوئی واردات کا اظہار ہے ۔ان کی شاعری میں عشق اور حسن کی بڑی اہمیت ہے۔ ان کی شاعری کا محور حسن و عشق ہی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ذکر بھی کیا ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے مجاز کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں
تواضع خاک ساری ہے ہماری سرفرازی ہے
حقیقت کے لغت کا ترجمہ عشق مجازی ہے
یا پھر ان کا کہنا ہے
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
مجازی عشق کا بیان ولی نے پوری فنکاری اور مہارت کے ساتھ کیا ہے۔ اپنے محبوب کی تعریف اور اس کی سراپا نگاری انہوں نے جس انداز سے کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ولی کی جمالیاتی حس بہت شدید ہے ۔ان کے کلیات کے بیشتر اشعار ایسے لطیف و تیز احساس جمال کی تصویر پیش کرتے ہیں جس کی مثالیں اردو شاعری میں بہت کم ہے۔ اسی احساس جمال نے انہیں اردو کا سب سے بڑا سراپا نگار بنا دیا ہے۔ اشعار بطور مثال درج کیے جا رہے ہیں
قد تیرا رشک سرو رعنا ہے
معنی نازکی سراپا ہے
چمن حسن میں نگہ کر دیکھ
زلف معشوق عشق پیچاں ہے
کیوں نہ مجھ دل کوں زندگی بخشے
بات تیری دم مسیحا ہے
مقامی روایات اور الفاظ کے استعمال سے ساتھ حسن کا بیان ملاحظہ ہو
کوچہ یار عین کاسی ہے
جوگی دل وہاں کا باسی ہے
اے صنمم تجھ جبیں اپر یہ خیال
ہندو ہردوار باسی ہے
زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نزک اس کے جیوں سناسی ہے
فارسی ادب کی خوشہ چینی کے ساتھ حسن کی تصویر کشی دیکھیے:
تیرا مکھ مشرقی حسن انوری جلوہ جمالی ہے
نین جامی جبیں فردوسی و ابرو ہلالی ہے
ریاضی فہم گلشن طبع و دانا دل علی فطرت
زباں تیری فصیحی وہ سخن تیرا زلالی ہے
نگہ میں فیضی و قدسی سرشت میں طالب و شیدا
کمالی بدر، دل اہلی انکھیاں سو غزالی ہے
ولی تجھ قدو ابرو کا ہوا ہے شوقی مائل
تو ہر اک بیت علی ہور ہراک مصرع خیالی ہے
اپنے محبوب کے بارے میں ولی ایک مقام پر لکھتے ہیں
جگ میں دوجا نہیں ہے خوب رو تجھ سار کا
چاند کو ہے آسماں پر عشق تجھ رخسار کا
جب سوں تیری زلف کو دیکھا ہے زاہد اے صنم
ترک کر مسجد کوں ہے مشتاق تجھ زنار کا
ولی کے کلام میں تشبیہات و استعارات کا استعمال بھی بہت اہم ہے۔ انہوں نے مروجہ تشبیہات کو تازگی اور توانائی بخشی ۔اس کے علاوہ نئی تشبیہات اور استعار وضع کیے جنہوں نے غزل کے دامن کو وسعت دی اور اظہار و بیان کے نئے راستے اور انداز پیدا کیے۔
صنعت کے مصور نے صباحت کے صفحے پر
تصویر بنائی ہے تیری نور کو حل کر
دونوں جہاں کو مست کرے ایک جام میں
آنکھوں کا تیرے عکس پڑے گر شراب میں
موج دریا کی دیکھنے مت جا
دیکھ اس زلف عنبریں کی ادا
حسن ہے دام بلا زلف ہے دہ کالے ناگ
جس کو کالے نے ڈسا اس کوں جلانا مشکل
تشبیہات و استعارات کی مدد سے ولی اپنے محبوب کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس کی محبت میں ولی اپنے عشق کی جو روداد بیان کرتے ہیں اس میں ایک مخصوص قسم کی شائستگی پائی جاتی ہے۔ بوالہوسی اور ہرجائی پن کے بجائے وفاداری اور پاس عشق ملتا ہے۔ سنجیدگی گہرائی ضبط اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ ان کے عشق کا دائرہ بے حد وسیع ہے ۔ان کے نزدیک عشق محبت سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں تھی۔ ان کا کلیات ان کی عاشق مزاجی اور حسن پرستی کا مرکب ہے۔ ان کے کلام میں جو خاص درد اور مٹھاس نمایاں ہے غالبا وہ ان کی حقیقی اور بے لوث محبت کی وجہ سے ہے ۔انہوں نے اپنی بے لاگ محبت کا اظہار کئی طرح سے کیا ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار
عارفاں پر ہمیشہ روشن ہے
کہ فن عاشقی عجب فن ہے
پاک بازوں سے یہ ہوا معلوم
عشق مضمون پاک بازی کا
وہ مرا مقصود جان و تن ہوا
جس کا مجھ کو رات دن سمرن ہوا
بے کسی کے حال میں یک آن میں تنہا نہیں
غم تیرا سینے میں میرے ہمدم جانی ہوا
قرار نہیں ہے میرے دل کو اے سجن تجھ بن
ہوئی ہے دل میرے میرے آہ شعلہ زن تجھ بن
ولی کا عشق خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ ولی نے مجازی عشق کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد اس عشق کے سرے عشق حقیقی سے ملا دیے ہیں۔ اس تصور عشق کے ذریعے ولی تصوف کی روایت کو اپنے موضوعات کے پھیلاؤ اور کم و بیش ساری علامات کے ساتھ اردو شاعری کے دامن میں جگہ دیتے ہیں اور ایک نئے لہجے اور زندہ آوازوں سے ان میں ایک ایسا رنگ بھر دیتے ہیں کہ ولی کے اس قسم کے اشعار کے مطالعے کے بعد ان کا صوفی کامل ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔
عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا
بغیر ازدیدہ حیراں نہیں جگ میں نقاب اس کا
سجن کے باج عالم میں دگر نئیں
ہمیں میں ہے ولے ہم کو خبر نئیں
ہر ذرہ عالم میں ہے خورشید حقیقی
یوں بوجھ کے بلبل ہوں ہر یک غنچہ وہاں کا
تصوف و عرفان کے ساتھ ولی کے پاس زندگی کے اعلی مقاصد و دنیاوی زندگی کی بےثباتی کا ذکر ملتا ہے۔ ظاہر پرستی نمود نمائش سے نفرت کا اظہار صداقت کی تعلیم خوش خصلتی تسلیم و رضا پاک بازی صبر کی تلقین پائی جاتی ہے۔ ولی نے انسانی زندگی کی حقیقت سادگی اور صفائی کے ساتھ بیان کی ہے ۔دولت سب کچھ نہیں ہے لیکن بہت کچھ ہے۔ ولی نے ہندی کے الفاظ و فارسی الفاظ اور محاورات کو اس طرح ملایا کہ خوبصورت دلکش ادبی زبان بن گئی ہے۔ الفاظ و تراکیب کی جدت اور ندرت ولی کی شاعری میں نکھاراور خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔ شاعری میں مختلف صنعتوں کے استعمال سے ولی نے جو حسن پیدا کیا ہے اس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ ولی کے پاس رعایت لفظی کا استعمال اکثر و بیشتر ہوا ہے۔ صنعت مرات النظیر کا استعمال بھی ولی کے پاس مہارت کے ساتھ ملتا ہے۔ابہام کی صنعوت کو ولی نے فنکاری کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ شمالی ہند کے شعرا نے ولی کی تقلید میں ایہام گوئی کو رواج دیا۔ ولی نے پیش روشعرا سے حاصل کردہ روایات میں اپنے علم و فضل سے کسب و اکتساب کر کے وہ سب کچھ شامل کر دیا جس سے ان کی شاعری ان کی آواز منفرد رنگارنگ اختیار کر گئی۔ بعد کے تقریبا تمام بڑے شاعروں کے پاس ولی کے خیالات افکار نظریات اور موضوعات کی موجودگی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والوں کے لیے نئی راہیں چھوڑ گئے۔ مختلف شعر اکے پاس ولی کے خیال اور موضوع کی تکرار ملتی ہے۔
غرض ولی نے غزل کے امکانات کا وسیع راستہ آنے والے شعرا کے سامنے کھول دیا اور ولی کی غزل کے رجحانات اردو غزل کے بنیادی رجحان بن گئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ:
’’ یہ بات یاد رہے کہ آگے چل کر جتنے رجحانات نمایاں ہوئے وہ خواہ عشقیہ شاعری کا رجحان ہو یا ابہام پسندی کا لکھنوی شاعری کی خارجیت اور مسی چوٹی والی شاعری ہو، مسائل تصوف کے بیان والی شاعری ہو یا ایسی شاعری جس میں داخلیت اور رنگا رنگ تجربات کا بیان ہو یا اصلاح زبان و بیان کی تحریک ہو، سب کا مبدا ولی ہے۔ ولی کا اجتہاد اتنا بڑا ہے کہ اردو غزل نے جو رخ بھی بدلا اس میں ولی کو ہی رہبر پایا۔‘‘
اپنی صلاحیتوں کے ماہرانہ استعمال سے صنف غزل کو ممتاز مقام تک پہنچانے کے ساتھ ولی نے آنے والوں کو یہ پیغام بھی دیا ہے:
راہ مضمون تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن