حیدر علی آتش – وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم
وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم
نکلے تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم
ساکن ہیں جوش اشک سے آب رواں میں ہم
رہتے ہیں مثل مردم آبی جہاں میں ہم
شیدائے روئے گل نہ تو شیدائے قد سرو
صیاد کے شکار ہیں اس بوستاں میں ہم
نکلی لبوں سے آہ کہ گردوں نشانہ تھا
گویا کہ تیر جوڑے ہوئے تھے کماں میں ہم
آلودۂ گناہ ہے اپنا ریاض بھی
شب کاٹتے ہیں جاگ کے مغ کی دکاں میں ہم
ہمت پس از فنا سبب ذکر خیر ہے
مردوں کا نام سنتے ہیں ہر داستاں میں ہم
ساقی ہے یار ماہ لقا ہے شراب ہے
اب بادشاہ وقت ہیں اپنے مکاں میں ہم
نیرنگ روزگار سے ایمن ہیں شکل سرو
رکھتے ہیں ایک حال بہار و خزاں میں ہم
دنیا و آخرت میں طلب گار ہیں ترے
حاصل تجھے سمجھتے ہیں دونوں جہاں میں ہم
پیدا ہوا ہے اپنے لیے بوریائے فقر
یہ نیستاں ہے شیر ہیں اس نیستاں میں ہم
خواہاں کوئی نہیں تو کچھ اس کا عجب نہیں
جنس گراں بہا ہیں فلک کی دکاں میں ہم
لکھا ہے کس کے خنجر مژگاں کا اس نے وصف
اک زخم دیکھتے ہیں قلم کی زباں میں ہم
کیا حال ہے کسی نے نہ پوچھا ہزار حیف
نالاں رہے جرس کی طرح کارواں میں ہم
آیا ہے یار فاتحہ پڑھنے کو قبر پر
بیدار بخت خفتہ ہے خواب گراں میں ہم
شاگرد طرز خندہ زنی میں ہے گل ترا
استاد عندلیب ہیں سوز و فغاں میں ہم
باغ جہاں کو یاد کریں گے عدم میں کیا
کنج قفس سے تنگ رہے آشیاں میں ہم
اللہ رے بے قرارئ دل ہجر یار میں
گاہے زمیں میں تھے تو گہے آسماں میں ہم
دروازہ بند رکھتے ہیں مثل حباب بحر
قفل درون خانہ ہیں اپنے مکاں میں ہم
آتشؔ سخن کی قدر زمانے سے اٹھ گئی
مقدور ہو تو قفل لگا دیں زباں میں ہم