غزل

غزل – میر تقی میر

Loading

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند

یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی

ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں

بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی

کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام

کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں

جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا

کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے

آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا

یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے

رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا

صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی

رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا

ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے

بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا

کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے

استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا

ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی

سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

Our Visitor

0 0 9 8 7 8
Users Today : 0
Users Yesterday : 10
Users Last 7 days : 93
Users Last 30 days : 425
Users This Month : 0
Users This Year : 4624
Total Users : 9878
Views Today :
Views Yesterday : 21
Views Last 7 days : 208
Views Last 30 days : 782
Views This Month :
Views This Year : 8660
Total views : 24665
Who's Online : 0
Your IP Address : 18.216.245.99
Server Time : 2024-11-01