نظم

صبح آزادی (47) – فیض احمد فیض

Loading

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل

جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے

چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے

دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے

پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے

بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن

بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن

سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور

سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام

بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور

نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام

جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن

کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں

کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی

ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

Our Visitor

0 1 3 9 0 2
Users Today : 0
Users Yesterday : 7
Users Last 7 days : 190
Users Last 30 days : 707
Users This Month : 25
Users This Year : 2593
Total Users : 13902
Views Today :
Views Yesterday : 8
Views Last 7 days : 526
Views Last 30 days : 2077
Views This Month : 55
Views This Year : 5286
Total views : 32910
Who's Online : 0
Your IP Address : 216.73.216.211
Server Time : 2025-06-03
error: Content is protected !!