قصیدہ

صبح دم دروازۂ خاور کھلا – غالب

Loading

صبح دم دروازۂ خاور کھلا

مہر عالم تاب کا منظر کھلا

خسرو انجم کے آیا صرف میں

شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا

وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود

صبح کو راز مہ و اختر کھلا

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

سطح گردوں پر پڑا تھا رات کو

موتیوں کا ہر طرف زیور کھلا

صبح آیا جانب مشرق نظر

اک نگار آتشیں رخ سر کھلا

تھی نظر بندی کیا جب رد سحر

بادۂ گلرنگ کا ساغر کھلا

لا کے ساقی نے صبوحی کے لیے

رکھ دیا ایک جام زر کھلا

بزم سلطانی ہوئی آراستہ

کعبۂ امن و اماں کا در کھلا

تاج زریں مہر تاباں سے سوا

خسرو آفاق کے منہ پر کھلا

شاہ روشن دل بہادر شہ کو ہے

راز ہستی اس پر سر تا سر کھلا

وہ کہ جس کی صورت تکوین میں

مقصد نہ چرخ و ہفت اختر کھلا

وہ کہ جس کے ناخن تاویل سے

عقدہ احکام پیغمبر کھلا

پہلے دارا کا نکل آیا ہے نام

اس کے سرہنگوں کا جب دفتر کھلا

روشناسوں کی جہاں فہرست ہے

واں لکھا ہے چہرۂ قیصر کھلا

*

توسن شہ میں ہے وہ خوبی کہ جب

تھان سے وہ غیرت صرصر کھلا

نقش پا کی صورتیں وہ دلفریب

تو کہے بت خانہ آزر کھلا

مجھ پہ فیض تربیت سے شاہ کے

منصب مہر و مہ و محور کھلا

لاکھ عقدے دل میں تھے لیکن ہر ایک

میری حد وسع سے باہر کھلا

تھا دل وابستہ قفل بے کلید

کس نے کھولا کب کھلا کیوں کر کھلا

باغ معنی کی دکھاؤں گا بہار

مجھ سے گر شاہ سخن گستر کھلا

ہو جہاں گرم غزالخوانی نفس

لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھلا

Our Visitor

0 0 9 8 7 8
Users Today : 0
Users Yesterday : 10
Users Last 7 days : 93
Users Last 30 days : 425
Users This Month : 0
Users This Year : 4624
Total Users : 9878
Views Today :
Views Yesterday : 21
Views Last 7 days : 208
Views Last 30 days : 782
Views This Month :
Views This Year : 8660
Total views : 24665
Who's Online : 0
Your IP Address : 3.144.86.233
Server Time : 2024-11-01