کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے – مرزا سلامت علی دبیر
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے
ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
ہیبت سے ہیں نہ قلعۂ افلاک کے دربند
جلاد فلک بھی نظر آتا ہے نظر بند
وا ہے کمر چرخ سے جوزا کا کمر بند
سیارے ہیں غلطاں صفت طائر پر بند
انگشت عطارد سے قلم چھوٹ پڑا ہے
خورشید کے پنجے سے علم چھوٹ پڑا ہے
خود فتنۂ و شر پڑھ رہے ہیں فاتحۂ خیر
کہتے ہیں انالعبد لرز کر صنم دیر
جاں غیر ہے تن غیر مکیں غیر مکاں غیر
نے چرخ کا ہے دور نہ سیاروں کی ہے سیر
سکتے میں فلک خوف سے مانند زیں ہے
جز بخت یزید اب کوئی گردش میں نہیں ہے
بے ہوش ہے بجلی پہ سمند ان کا ہے ہشیار
خوابیدہ ہیں سب طالع عباس ہے بیدار
پوشیدہ ہے خورشید علم ان کا نمودار
بے نور ہے منہ چاند کا رخ ان کا ضیا بار
سب جزو ہیں کل رتبہ میں کہلاتے ہیں عباس
کونین پیادہ ہیں سوار آتے ہیں عباسؑ
چمکا کے مہ و خور زر و نقرہ کے عصا کو
سرکاتے ہیں پیر فلک پشت دوتا کو
عدل آگے بڑھا حکم یہ دیتا ہے قضا کو
ہاں باندھ لے ظلم و ستم و جور و جفا کو
گھر لوٹ لے بغض و حسد و کذب و ریا کا
سرکاٹ لے حرص و طمع و مکر و دغا کا
راحت کے محلوں کو بلا پوچھ رہی ہے
ہستی کے مکانوں کو فنا پوچھ رہی ہے
تقدیر سے عمر اپنی قضا پوچھ رہی ہے
دونوں کا پتہ فوج جفا پوچھ رہی ہے
غفلت کا تو دل چونک پڑا خوف سے ہل کر
فتنے نے کیا خواب گلے کفر سے مل کر
النشر کا ہنگامہ ہے اس وقت حشر میں
الصورکا آوازہ ہے اب جن و بشر میں
الہجر کا ہے تذکرہ باہم تن و سر میں
الوصل کا غل ہے سقر و اہل سقر میں
الحشر جو مردے نہ پکاریں تو غضب ہے
الموت زبان ملک الموت پہ اب ہے
روکش ہے اس اک تن کا نہ بہمن نہ تہمتن
سہراب و نریمان و پشن بے سرو بے تن
قاروں کی طرح تحت زمیں غرق ہے قارن
ہر عاشق دنیا کو ہے دنیا چہہ بے زن
سب بھول گئے اپنا حسب اور نسب آج
آتا ہے جگر گوشۂ قتال عرب آج
ہر خود نہاں ہوتا ہے خود کاسۂ سر میں
مانند رگ و ریشہ زرہ چھپتی ہے بر میں
بے رنگ ہے رنگ اسلحے کا فوج عمر میں
جوہر ہے نہ تیغوں میں نہ روغن ہے سپر میں
رنگ اڑ کے بھرا ہے جو رخ فوج لعیں کا
چہرہ نظر آتا ہے فلک کا نہ زمیں کا
ہے شور فلک کا کہ یہ خورشید عرب ہے
انصاف یہ کہتا ہے کہ چپ ترک ادب ہے
خورشید فلک پرتو عارض کا لقب ہے
یہ قدرت رب قدرت رب قدرت رب ہے
ہر ایک کب اس کے شرف و جاہ کو سمجھے
اس بندے کو وہ سمجھے جو اللہ کو سمجھے
یوسف ہے یہ کنعاں میں سلیماں ہے سبا میں
عیسیٰ ہے مسیحائی میں موسیٰ ہے دعا میں
ایوب ہے یہ صبر میں یحییٰ ہے بکا میں
شپیر ہے مظلومی میں حیدر ہے وغا میں
کیا غم جو نہ مادر نہ پدر رکھتے ہیں آدم
عباس سا دنیا میں پسر رکھتے ہیں آدم
پنجے میں یداللہ ہے بازو میں ہے جعفر
طاعت میں ملک خو میں حسنؑ زور میں حیدر
اقبال میں ہاشم تو تواضع میں پیمبر
اور طنطنہ و دبدبہ میں حمزۂ صفدر
جوہر کے دکھانے میں یہ شمشیر خدا ہے
اور سر کے کٹانے میں یہ شاہ شہدا ہے
بے ان کے شرف کچھ بھی زمانہ نہیں رکھتا
ایمان سوا ان کے خزانہ نہیں رکھتا
قرآں بھی کوئی اور فسانہ نہیں رکھتا
شپیر بغیر ان کے یگانہ نہیں رکھتا
یہ روح مقدس ہے فقط جلوہ گری میں
یہ عقل مجرد ہے جمال بشری میں
صحرا میں گرا پرتو عارض جو قضارا
سورج کی کرن نے کیا شرما کے کنارا
یوں دھوپ اڑی آگ پہ جس طرح سے پارا
موسیٰ کی طرح غش ہوئے سب کیسا نظارا
جز مدح نہ دم روشنئ طور نے مارا
شب خون عجب دھوپ پہ اس نور نے مارا
قربان ہوائے علم شاہ امم کے
سب خار ہرے ہو کے بنے سرو ارم کے
ہیں راز عیاں خالق ذوالفضل و کرم کے
جبریلؑ نے پر کھولے ہیں دامن میں علم کے
پرچم کا جہاں عکس گرا صاعقہ چمکا
پرچم کہیں دیکھا نہ سنا اس چم و خم کا
قرنا میں نہ دم ہے نہ جلاجل میں صدا میں ہے
بوق و دہل و کوس کی بھی سانس ہوا ہے
ہر دل کے دھڑکنے کا مگر شور بپا ہے
باجا جو سلامی کا اسے کہیے بجا ہے
سکتے میں جو آواز ہے نقارۂ و دف کی
نوبت ہے ورود خلف شاہ نجف کی
آمد کو تو دیکھا رخ پر نور کو دیکھو
والشمش پڑھو روشنیٔ طور کو دیکھو
نے روشنیٔ ماہ کو نے ہور کو دیکھو
اس شمع مراد ملک و حور کو دیکھو
ہے کون تجلی رخ پر نور کی مانند
یاں روشنیٔ طور جلی طور کی مانند
مداح کو اب تازگیٔ نظم میں کد ہے
یا حضرت عباسؑ علیؑ وقت مدد ہے
مولا کی مدد سے جو سخن ہو وہ سند ہے
اس نظم کا جو ہو نہ مقر اس کو حسد ہے
حاسد سے صلا بھی نہیں درکار ہے مجھ کو
سرکار حسینیؑ سے سروکار ہے مجھ کو
گلزار ہے یہ نظم و بیاں بیشہ نہیں ہے
باغی کو بھی گلگشت میں اندیشہ نہیں ہے
ہر مصرعۂ پر جستہ ہے پھل تیشہ نہیں ہے
یاں مغز سخن کا ہے رگ و ریشہ نہیں ہے
صحت مری تشخیص سے ہے نظم کے فن کی
مانند قلم ہاتھ میں ہے نبض سخن کی
گر کاہ ملے فائدہ کیا کوہکنی سے
میں کاہ کو گل کرتا ہوں رنگیں سخنی سے
خوش رنگ ہے الفاظ عقیق یمنی سے
یہ ساز ہے سوز غم شاہ مدنی سے
آہن کو کروں نرم تو آئینہ بنا لوں
پتھر کو کروں گرم تو میں عطر نکا لوں
گو خلعت تحسیں مجھے حاصل ہے سراپا
پر وصف سراپا کا تو مشکل ہے سراپا
ہر عضو تن اک قدرت کامل ہے سراپا
یہ روح ہے سر تا بقدم دل ہے سراپا
کیا ملتا ہے گر کوئی جھگڑتا ہے کسی سے
مضمون بھی اپنا نہیں لڑتا ہے کسی سے
سورج کو چھپاتا ہے گہن آئینہ کو زنگ
داغی ہے قمر سوختہ و لالۂ خوش رنگ
کیا اصل در و لعل کی وہ پانی ہے یہ سنگ
دیکھو گل و غنچہ وہ پریشاں ہے یہ دل تنگ
اس چہرے کو داور ہی نے لاریب بنایا
بے عیب تھا خود نقش بھی بے عیب بنایا
انساں کہے اس چہرے کو کب چشمۂ حیواں
یہ نور وہ ظلمت یہ نمودار وہ پنہاں
برسوں سے ہے آزار برص میں مہ تاباں
کب سے یرقاں مہر کو ہے اور نہیں درماں
آئینہ ہے گھر زنگ کایہ رنگ نہیں ہے
اس آئینہ میں رنگ ہے اور زنگ نہیں ہے
آئینہ کہا رخ کو تو کچھ بھی نہ ثنا کی
صنعت وہ سکندر کی یہ صنعت ہے خدا کی
واں خاک نے صیقل یہاں قدرت نے جلا کی
طالع نے کس آئینہ کو خوبی یہ عطا کی
ہر آئینہ میں چہرۂ انساں نظر آیا
اس رخ میں جمال شہ مرداں نظر آیا
بے مثل حسیں ہے نگہ اہل یقیں میں
بس ایک یہ خورشید ہے افلاک و زمیں میں
جلوہ ہے عجب ابروؤں کا قرب جبیں میں
دو مچھلیاں ہیں چشمۂ خورشید مبیں میں
مردم کو اشارہ ہے یہ ابرو کا جبیں پر
ہیں دو مہ نو جلوہ نما چرخ بریں پر
بینی کے تو مضموں پہ یہ دعوا ہے یقینی
اس نظم کے چہرے کی وہ ہوجائے گا بینی
منظور نگہ کو جو ہوئی عرش نشینی
کی سایۂ بینی نے فقط جلوہ گزینی
درکار اسی بینی کی محبت کا عصا ہے
یہ راہ تو ایماں سے بھی باریک سوا ہے
بینی کو کہوں شمع تو لو اس کی کہاں ہے
پر نور بھنوؤں پر مجھے شعلہ کا گماں ہے
دو شعلے اور اک شمع یہ حیرت کا مکاں ہے
ہاں زلفوں کے کوچوں سے ہوا تند رواں ہے
سمجھو نہ بھویں بس کہ ہوا کا جو گزر ہے
یہ شمع کی لو گاہ ادھر گاہ ادھر ہے
اس درجہ پسند اس رخ روشن کی چمک ہے
خورشید سے برگشتہ ہر اک ماہ فلک ہے
ابرو کا یہ غل کعبۂ افلاک تلک ہے
محراب دعائے بشر و جن و ملک ہے
دیکھا جو مہ نو نے اس ابرو کے شرف کو
کعبہ کی طرف پشت کی رخ اس کی طرف کو
جو معنیٔ تحقیق سے تاویل کا ہے فرق
پتلی سے وہی کعبہ کی تمثیل کا ہے فرق
سرمہ سے اور اس آنکھ سے اک میل کا ہے فرق
میل ایک طرف نور کی تکمیل کا ہے فرق
اس آنکھ پہ امت کے ذرا خشم کو دیکھو
ناوک کی سلائی کو اور اس چشم کو دیکھو
گر آنکھ کو نرگس کہوں ہے عین حقارت
نرگس میں نہ پلکیں ہیں نہ پتلی نہ بصارت
چہرے پہ مہ عید کی بے جا ہے اشارت
وہ عید کا مژدہ ہے یہ حیدرؑ کی بشارت
ابرو کی مہ نو میں نہ جنبش ہے نہ ضو ہے
اک شب وہ مہ نو ہے یہ ہر شب مہ نو ہے
منہ غرق عرق دیکھ کے خورشید ہوا تر
ابرو سے ٹپکتا ہے نرا تیغ کا جوہر
آنکھوں کا عرق روغن بادام سے بہتر
عارض کا پسینہ ہے گلاب گل احمر
قطرہ رخ پر نور پہ ڈھلتے ہوئے دیکھو
عطر گل خورشید نکلتے ہوئے دیکھو
تسبیح کناں منہ میں زبان آٹھ پہر ہے
گویا دہن غنچہ میں برگ گل تر ہے
کب غنچہ و گلبرگ میں یہ نور مگر ہے
اس برج میں خورشید کے ماہی کا گزر ہے
تعریف میں ہونٹوں کی جو لب تر ہوا میرا
دنیا ہی میں قابو لب کوثر ہوا میرا
یہ منہ جو ردیف لب خوش رنگ ہوا ہے
کیا فاقیہ غنچہ کا یہاں تنگ ہوا ہے
اب مدح دہن کا مجھے آہنگ ہوا ہے
پر غنچے کا نام اس کے لیے ننگ ہوا ہے
غنچہ کہا اس منہ کو حذر اہل سخن سے
سونگھے کوئی بو آتی ہے غنچے کے دہن سے
شیریں رقموں میں رقم اس لب کی جدا ہے
اک نے شکر اور ایک نے یاقوت لکھا ہے
یاقوت کا لکھنا مگر ان سب سے بجا ہے
یاقوت سے بڑھ جو لکھوں میں تو مزا ہے
چوسا ہے یہ لب مثل رطب حق کے ولی نے
یاقوت کا بوسہ لیا کس روز علیؑ نے
جان فصحا روح فصاحت ہے تو یہ ہے
ہر کلمہ ہے موقع پہ بلاغت ہے تو یہ ہے
اعجاز مسیحا کی کرامت ہے تو یہ ہے
قائل ہے نزاکت کہ نزاکت ہے تو یہ ہے
یوں ہونٹوں پہ تصویر سخن وقت بیاں ہے
یاقوت سے گویا رگ یاقوت عیاں ہے
اب اصل میں شیریں دہنی کی کروں تحریر
طفلی میں کھلا جبکہ یہی غنچۂ تقریر
پہلے یہ خبر دی کہ میں ہوں فدیۂ شپیر
اس مژدے پہ مادر نے انہیں بخش دیا شیر
منہ حیدر کرار نے میٹھا کیا ان کا
شیرینیٔ اعجاز سے منہ بھر دیا ان کا
اس لب سے دم تازہ ہر اک زندے نے پایا
جیسے شہ مرداں نے نصیری کو جلایا
جان بخشئے اموات کا گویا ہے یہ آیا
ہم دم دم روح القدس ان کا نظر آیا
دم قالب بے جاں میں جو دم کرتے تھے عیسیٰ
ان ہونٹوں کے اعجاز کا دم بھرتے تھے عیسیٰ
دانتوں کی لڑی سے یہ لڑی عقل خدا داد
وہ بات ٹھکانے کی کہوں اب کہ رہے یاد
یہ گوہر عباس ہیں پاک ان کی ہے بنیاد
عباس و نجف ایک ہیں گنئے اگر اعداد
معدن کے شرف ہیں یہ جواہر کے شرف ہیں
دنداں در عباس ہیں تو در نجف ہیں
اثناعشری اب کریں ہاتھوں کا نظارا
دس انگلیاں ہیں مثل علم ان میں صف آرا
ہر پنجہ کا ہے پنجتنی کو یہ اشارا
اے مومنو عشرہ میں علم رکھنا ہمارا
پہلے مرے آقا مرے سالار کو رونا
پھر زیر علم ان کے علمدار کو رونا
تا موئے کمر فکر کا رشتا نہیں جاتا
فکر ایک طرف وہم بھی حاشا نہیں جاتا
پر فکر رسا کا مری دعوا نہیں جاتا
مضمون یہ نازک ہے کہ باندھا نہیں جاتا
اب زیب کمر تیغ شرر بار جو کی ہے
عباسؑ نے شعلہ کو گرہ بال سے دی ہے
عشاق ہوں اب عالم بالا کی مدد کا
درپیش ہے مضمون علمدار کے قد کا
یہ ہے قد بالا پسر شیر صمد کا
یا سایہ مجسم ہوا اللہ احد کا
اس قد پہ دو ابرو کی کشش کیا کوئی جانے
کھینچے ہیں دو مد ایک الف پر یہ خدا نے
نے چرخ کے سو دورے نہ اک رخش کا کاوا
دیتا ہے سدا عمر رواں کو یہ بھلاوا
یہ قسم ہے ترکیب عناصر کے علاوا
اللہ کی قدرت ہے نہ چھل بل نہ چھلاوا
چلتا ہے غضب چال قدم شل ہے قضا کا
توسن نہ کہو رنگ اڑا ہے یہ ہوا کا
گردش میں ہر اک آنکھ ہے فانوس خیالی
بندش میں ہیں نعل اس کے رباعئ ہلالی
روشن ہے کہ جوزا نے عناں دوش پہ ڈالی
بھرتی سے ہے مضمون رکابوں کا بھی خالی
سرعت ہے اندھیرے اور اجالے میں غضب کی
اندھیاری اسے چاندنی ہے چودھویں شب کی
گردوں ہو کبھی ہم قدم اس کا یہ ہے دشوار
وہ قافلہ کی گرد ہے یہ قافلہ سالار
وہ ضعف ہے یہ زور وہ مجبور یہ مختار
یہ نام ہے وہ ننگ ہے یہ فخر ہے وہ عار
اک جست میں رہ جاتے ہیں یوں ارض و سما دور
جس طرح مسافر سے دم صبح سرا دور
جو بوند پسینے کی ہے شوخی سے بھری ہے
ان قطروں میں پریوں سے سوا تیز پری ہے
گلشن میں صبا باغ میں یہ کبک دری ہے
فانوس میں پروانہ ہے شیشے میں پری ہے
یہ ہے وہ ہما جس کے جلو دار ملک ہیں
سایہ کی جگہ پر کے تلے ہفت فلک ہیں
ٹھہرے تو فلک سب کو زمیں پر نظر آئے
دوڑے تو زمیں چرخ بریں پر نظر آئے
شہباز ہوا کا نہ کہیں پر نظر آئے
راکب ہی فقط دامن زیں پر نظر آئے
اس راکب و مرکب کی برابر جو ثنا کی
یہ علم خدا کا وہ مشیت ہے خدا کی
شوخی میں پری حسن میں ہے حور بہشتی
طوفان میں راکب کے لئے نوح کی کشتی
کب ابلق دوراں میں ہے یہ نیک سرشتی
یہ خیر ہے وہ شر ہے یہ خوبی ہے وہ زشتی
صحرا میں چمن فصل بہاری ہے چمن میں
رہوار ہے اصطبل میں تلوار ہے رن میں
اس رخش کو عباسؑ اڑاتے ہوئے آئے
کوس لمن الملک بجاتے ہوئے آئے
تکبیر سے سوتوں کو جگاتے ہوئے آئے
اک تیغ نگہ سب پہ لگاتے ہوئے آئے
بے چلے کے کھینچے ہوئے ابرو کی کماں کو
بے ہاتھ کے تانے ہوئے پلکوں کی سناں کو
لکھا ہے مورخ نے کہ اک گبر دلاور
ہفتم سے فروکش تھا میان صف لشکر
روئیں تن و سنگیں دل و بد باطن و بدبر
سر کرکے مہم نیزوں پہ لایا تھا کئی سر
ہمراہ شقی فوج تھی ڈنکا تھا نشاں تھا
جاگیر کے لینے کو سوئے شام رواں تھا
تقدیر جو رن میں شب ہفتم اسے لائی
خلوت میں اسے بات عمر نے یہ سنائی
درپیش ہے سادات سے ہم کو بھی لڑائی
وان پنچتنی چند ہیں یاں ساری خدائی
اکبرؑ کا نہ قاسمؑ کا نہ شپیرؑ کا ڈر ہے
دو لاکھ کو اللہ کی شمشیر کا ڈر ہے
بولا وہ لرز کر کہ ہوا مجھ کو بھی وسواس
شمشیر خدا کون عمر بولا کہ عباسؑ
اس نے کہا پھر فتح کی کیوں کر ہے تجھے آس
بولا کہ کئی روز سے اس شیر کو ہے پیاس
ہم بھی ہیں بہادر نہیں ڈرتے ہیں کسی سے
پر روح نکلتی ہے تو عباسؑ علی سے
تشریف علمدار جری رن میں جو لایا
اس گبر کو چپکے سے عمر نے یہ سنایا
اندیشہ تھا جس شیر کے آنے کا وہ آیا
سر اس نے پرے سے سوئے عباسؑ اٹھایا
دیکھا تو کہا کانپ کے یہ فوج وغا سے
روباہو لڑاتے ہو مجھے شیر خدا سے
مانا کہ خدا یہ نہیں قدرت ہے خدا کی
مجھ میں ہے نرا زور یہ قوت ہے خدا کی
کی خوب ضیافت مری رحمت ہے خدا کی
سب نے کہا تجھ پر بھی عنایت ہے خدا کی
جا عذر نہ کر نام ہے مردوں کا اسی سے
تو دبدبۂ و زور میں کیا کم ہے کسی سے
بادل کی طرح سے وہ گرجتا ہوا نکلا
جلدی میں سلح جنگ کے سجتا ہوا نکلا
ہرگام رہ عمر کو تجتا ہوا نکلا
اور سامنے نقارہ بھی بجتا ہوا نکلا
غالب تھا تہمتن کی طرح اہل جہاں پر
دھنستی تھی زمیں پاؤں وہ رکھتا تھا جہاں پر
تیار کمر کس کے ہوا جنگ پہ خونخوار
اور پیک اجل آیا کہ ہے قبر بھی تیار
خنجر لیا منہ دیکھنے کو اور کبھی تلوار
مثل ورم مرگ چڑھا گھوڑے پہ اک بار
وہ رخش پہ یا دیو دنی تخت زری پر
غل رن میں اٹھا کوہ چڑھا کبک دری پر
اس ہیئت و ہیبت سے وہ نخوت سیر آیا
آسیب کو بھی سائے سے اس کے حذر آیا
میدان قیامت کو بھی محشر نظر آیا
گرد اپنے لیے نیزوں پہ کشتوں کے سر آیا
زندہ ہی پئے سیر نہ ہر صف سے بڑھے تھے
سر مردوں کے نیزوں پہ تماشے کو چڑھے تھے
سیدھا کبھی نیزہ کو ہلایا کبھی آڑا
پڑھ پڑھ کے رجز باغ فصاحت کو اجاڑا
ظالم نے کئی پشت کے مردوں کو اکھاڑا
بولا میری ہیبت نے جگر شیروں کا پھاڑا
ہم پنچہ نہ رستم ہے نہ سہراب ہے میرا
مرحب بن عبدالقمر القاب ہے میرا
فتراک میں سر باندھتا ہوں پیل دماں کا
پنجہ میں سدا پھیرتا ہوں شیر ژیاں کا
نظارا ذرا کیجئے ہر شاخ سناں کا
اس نیزے پہ وہ سر ہے فلاں ابن فلاں کا
جو جو تھے یلان کہن اس دورۂ نو میں
تن ان کے تہ خاک ہیں سر میرے جلو میں
یاں سیف زباں سیف الٰہی نے علم کی
فرمایا مرے آگے ہے تقریر ستم کی
اب منہ سے کہا کچھ تو زباں میں نے قلم کی
کونین نے گردن مرے دروازے پہ خم کی
طاقت ہے ہماری اسداللہ کی طاقت
پنجے میں ہمارے ہے یداللہ کی طاقت
عبدالقمر نحس کا تو داغ جگر ہے
میں چاند علیؑ کا ہوں ارے یہ بھی خبر ہے
خورشید پرستی سے تری کیا مجھے ڈر ہے
قبضہ میں طناب فلک و شمش و قمر ہے
مقدور رہا شمس کی رجعت کا پدر کو
دو ٹکڑے چچا نے کیا انگلی سے قمر کو
خورشید درخشاں میں بتا نور ہے کس کا
کلمہ ورق ماہ پہ مسطور ہے کس کا
اور سورۂ والشمس میں مذکور ہے کس کا
ذرے کو کرے مہر یہ مقدور ہے کس کا
یہ صاحب مقدور نبیؐ اور علیؑ ہیں
یا ہم کہ غلام خلف الصدق نبیؐ ہیں
توبہ تو خدا جانتا ہے شمش و قمر کو
وہ شام کو ہوتا ہے غروب اور یہ سحر کو
ایمان سمجھ مہر شہ جن و بشر کو
شمع رہ معراج ہیں یہ اہل نظر کو
خورشید بنی فاطمہ تو شاہ امم ہیں
اور ماہ بنی ہاشمی آفاق میں ہم ہیں
دو چاند کو کرتی ہے اک انگشت ہماری
ہے مہر نبوت سے ملی پشت ہماری
ہے تیغ ظفر وقت زد و کشت ہماری
سو گرز قضا ضربت یکمشت ہماری
قدرت کے نیستان کے ہم شیر ہیں ظالم
ہم شیر ہیں اور صاحب شمشیر ہیں ظالم
سب کو ہے فنا دور ہمیشہ ہے ہمارا
سر پیش خدا رکھنا یہ پیشہ ہے ہمارا
ہیں شیر خدا جس میں وہ بیشہ ہے ہمارا
عاری ہے اجل جس سے وہ تیشہ ہے ہمارا
ہم جزو بدن اس کے ہیں جو کل کا شرف ہے
رشتے میں ہمارے گہر پاک نجف ہے
جوشن جو دعاؤں میں ہے وہ اپنی زرہ ہے
ہر عقدے کا ناخن مرے نیزے کی گرہ ہے
تلوار سے پانی جگر ہر کہ و مہ ہے
کاٹا پر جبریل کو جس تیغ سے یہ ہے
سرخود و کلہ کا نہیں محتاج ہمارا
شپیر کا ہے نقش قدم تاج ہمارا
احمد ہے چچا میرا پدر حیدرؑ صفدر
وہ کل کا پیمبر ہے یہ کونین کا رہبر
اور مادر زینبؑ کی ہے لونڈی مری مادر
بھائی مرا اک عون دو عبداللہ و جعفر
اور شپر و شپیر ہیں سردار ہمارے
ہم ان کے غلام اور وہ مختار ہمارے
قاسم کا عزادار ہوں اکبرؑ کا میں غمخوار
لشکر کا علمدار ہوں سرور کا جلو دار
میں کرتا ہوں پردا تو حرم ہوتے ہیں اسوار
تھا شب کو نگہبان خیام شہ ابرار
اب تازہ یہ بخشش ہے خدائے ازلی کی
سقا بھی بنا اس کا جو پوتی ہے علیؑ کی
ہم ہانٹتے ہیں روزئ ہر بندۂ غفار
رزاق کی سرکار کے ہیں مالک و مختار
پر حق کی اطاعت ہے جو ہر کار میں درکار
خود وقت سحر روزے میں کھالتے ہیں تلوار
ہیں عقدہ کشا وقت کشا قلعہ کشا بھی
پر صبر سے بندھواتے ہیں رسی میں گلا بھی
اس کے قدم پاک کا فدیہ ہے سر اپنا
قربان کیا جس پہ نبیؐ نے پسر اپنا
نذر سر اکبرؑ ہے دل اپنا جگر اپنا
بیت الشرف شاہ پہ صدقے ہے گھر اپنا
مشہور جو عباسؑ زمانے کا شرف ہے
شپیر کی نعلین اٹھانے کا شرف ہے
شاہوں کا چراغ آتے ہی گل کردیا ہم نے
ہر جا عمل ختم رسل کر دیا ہم نے
خندق پہ در قلعہ کو پل کر دیا ہم نے
اک جزو تھا کلمہ اسے کل کر دیا ہم نے
دھوکا نہ ہو یہ سب شرف شیر خدا ہیں
پھر وہ نہ جدا ہم سے نہ ہم ان سے جدا ہیں
ناری کو بہشتی کے رجز پر حسد آیا
یوں چل کے پئے حملہ وہ ملعون بد آیا
گویا کہ سقر سے عمر عبدود آیا
اور لرزے میں مرحب بھی میان لحد آیا
نفریں کی خدا نے اسے تحسیں کی عمر نے
مجرا کیا عباسؑ کو یاں فتح و ظفر نے
شپیر کو بڑھ بڑھ کے نقیبوں نے پکارا
لو ٹوٹتا ہے دست زبردست تمہارا
ہے مرحب عبدالقمر اب معرکہ آرا
شپیر یقیں جانو کہ عباسؑ کو مارا
یہ گرگ وہ یوسف یہ خزاں ہے وہ چمن ہے
وہ چاند یہ عقرب ہے وہ سورج یہ گہن ہے
اس شور نے تڑپا دیا حضرت کے جگر کو
اکبرؑ سے کہا جاؤ تو عمو کی خبر کو
اکبرؑ بڑھے اور مڑ کے پکارے یہ پدر کو
گھیرا ہے کئی نحس ستاروں نے قمر کو
اک فوج نئی گرد علمدار ہے رن میں
لو ماہ بنی ہاشمی آتا ہے گہن میں
اک گبر قوی آیا ہے کھینچے ہوئے تلوار
کہتا ہے کہ اک حملہ میں ہے فیصلۂ کار
سرکشتوں کے نیزوں پہ ہیں گرد اس کے نمودار
یاں دست بہ قبضہ متبسم ہیں علمدار
اللہ کرے خیر کہ ہے قصد شر اس کو
سب کہتے ہیں مرحب بن عبدالقمر اس کو
غل ہے کہ دل آل عبا توڑے گا مرحب
اب بازوئے شاہ شہدا توڑے گا مرحب
بند کمر شیر خدا توڑے گا مرحب
گوہر کو تہہ سنگ جفا توڑے گا مرحب
مرحب کا نہ کچھ اس کی توانائی کا ڈر ہے
فدوی کو چچا جان کی تنہائی کا ڈر ہے
شہ نے کہا کیا روح علیؑ آئی نہ ہوگی
نانا نے مرے کیا یہ خبر پائی نہ ہوگی
کیا فاطمہؑ فردوس میں گھبرائی نہ ہوگی
سر ننگے وہ تشریف یہاں لائی نہ ہوگی
بندوں پہ عیاں زور خدا کرتے ہیں عباسؑ
پیارے مرے دیکھو تو کہ کیا کرتے ہیں عباسؑ
سن کر یہ خبر بیبیاں کرنے لگیں نالا
ڈیوڑھی پہ کمر پکڑے گئے سید والا
چلائے کہ فضہ علی اصغر کو اٹھا لا
ہے وقت دعا چھوٹتا ہے گود کا پالا
سیدانیو! سر کھول دو سجادہ بچھا دو
دشمن پہ علمدار ہو غالب یہ دعا دو
خیمے میں قیامت ہوئی فریاد بکا سے
سہمی ہوئی کہتی تھی سکینہؑ یہ خدا سے
غارت ہو الٰہی جو لڑے میرے چچا سے
وہ جیتے پھریں خیر میں مرجاؤں بلا سے
صدقے کروں قربان کروں اہل جفا کو
دو لاکھ نے گھیرا ہے مرے ایک چچا کو
ہے ہے کہیں اس ظلم و ستم کا ہے ٹھکانا
سقے پہ سنا ہے کہیں تلوار اٹھانا
کوئی بھی روا رکھتا ہے سید کا ستانا
جائز ہے کسی پیاسے سے پانی کا چھپانا
ہفتم سے غذا کھائی ہے نے پانی پیا ہے
بے رحموں نے کس دکھ میں ہمیں ڈال دیا ہے
اچھی مری اماں مرے سقے کو بلاؤ
کہہ دو کہ سکینہؑ ہوئی آخر ادھر آؤ
اب پانی نہیں چاہیے تابوت منگاؤ
کاندھے سے رکھو مشک جنازے کو اٹھاؤ
ملنے مری تربت کے گلے آئیں گے عباسؑ
یہ سنتے ہی گھبرا کے چلے آئیں گے عباسؑ
اس عرصہ میں حملے کئے مرحب نے وہاں چار
پر ایک بھی اس پنچتنی پر نہ چلا وار
مانند دل و چشم ہر اک عضو تھا ہشیار
عاری ہوئی تلوار مخالف ہوا ناچار
جب تیغ کو جھنجلا کے رخ پاک پہ کھینچا
تلوار نے انگلی سے الف خاک پہ کھینچا
غازی نے کہا بس اسی فن پر تھا تجھے ناز
سیکھا نہ یداللٰہیوں سے ضرب کا انداز
پھر کھینچی اس انداز سے تیغ شرر انداز
جو میان کے بھی منہ سے ذرا نکلی نہ آواز
یاں خوف سے قالب کو کیا میان نے خالی
واں قالب اعدا کو کیا جان نے خالی
یہ تیغ سراپا جو برہنہ نظر آئی
پھر جامۂ تن میں نہ کوئی روح سمائی
ہستی نے کہا توبہ قضا بولی دہائی
انصاف پکارا کہ ہے قبضہ میں خدائی
لو فتح مجسم کا وہ سر جیب سے نکلا
نصرت کے فلک کا مہ نو غیب سے نکلا
بجلی گری بجلی پہ اجل ڈر کے اجل پر
اک زلزلہ طاری ہوا گردوں کے محل پر
سیارے ہٹے کر کے نظر تیغ کے پھل پر
خورشید تھا مریخ یہ مریخ زحل پر
یہ ہول دیا تیغ درخشاں کی چمک نے
جو تاروں کے دانتوں سے زمیں پکڑی فلک نے
مرحب سے مخاطب ہوئے عباسؑ دلاور
شمشیر کے مانند سراپا ہوں میں جوہر
ممکن ہے کہ اک ضرب میں دو ہو تو سراسر
پر اس میں عیاں ہوں گے نہ جوہر مرے تجھ پر
لے روک مرے وار ترے پاس سپر ہے
زخمی نہ کروں گا ابھی اظہار ہنر ہے
کاندھے سے سپر لے کے مقابل ہوا دشمن
بتلانے لگے تیغ سے یہ ضرب کا ہرفن
یہ سینہ یہ بازو یہ کمر اور یہ گردن
یہ خود یہ چار آئنہ یہ ڈھال یہ جوشن
کس وار کو وہ روکتا تلوار کہاں تھی
آنکھوں میں تو پھرتی تھی نگاہوں سے نہاں تھی
مرحب نے نہ پھر ڈھال نہ تلوار سنبھالی
اس ہاتھ سے سر ایک سے دستار سنبھالی
ظالم نے سناں غصے سے اک بار سنبھالی
اس شیر نے شمشیر شرر ہار سنبھالی
تانی جو سناں اس نے علمدار کے اوپر
یہ نیزا اڑا لے گئے تلوار کے اوپر
جو چال چلا وہ ہوا گمراہ و پریشاں
پھر زائچہ کھینچا جو کماں کا سر میداں
تیروں کی لڑائی پہ پڑا قرعۂ پیکاں
تیروں کو قلم کرنے لگی تیغ درخشاں
جوہر سے نہ تیروں ہی کے پھل داغ بدل تھے
گر شست کے تھے ساٹھ تو چلہ کے چہل تھے
اس تیغ نے سرکش کے جو ترکش میں کیا گھر
غل تھا کہ نیستاں میں گری برق چمک کر
پر تیروں کے کٹ کٹ کے اڑے مثل کبوتر
مرحب ہوا مضطر صفت طائر بے پر
بڑھ کر کہا غازی نے بتا کس کی ظفر ہے
اب مرگ ہے اور تو ہے یہ تیغ اور یہ سر ہے
نامرد نے پوشیدہ کیا رخ کو سپر سے
اور کھینچ لیا خنجر ہندی کو کمر سے
خنجر تو ادھر سے چلا اور تیغ ادھر سے
اس وقت ہوا چل نہ سکی بیچ میں ڈر سے
اللہ رے شمشیر علمدار کے جوہر
جوہر کیے اس خنجر خونخوار کے جوہر
خنجر کا جو کاٹا تو وہ ٹھہری نہ سپر پر
ٹھہری نہ سپر پر تو وہ سیدھی گئی سر پر
سیدھی گئی سر پر تو وہ تھی صدر و کمر پر
تھی صدر و کمر پر تو وہ تھی قلب و جگر پر
تھی قلب و جگر پر تو وہ تھی دامن زیں پر
تھی دامن زیں پر تو وہ راکب تھا زمیں پر
ایماں نے اچھل کر کہا وہ کفر کو مارا
قدرت نے پکارا کہ یہ ہے زور ہمارا
حیدر سے نبیؐ بولے یہ ہے فخر تمہارا
حیدرؑ نے کہا یہ مری پتلی کا ہے تارا
پروانۂ شمع رخ تاباں ہوئیں زہراؑ
محسن کو لیے گود میں قرباں ہوئیں زہراؑ
ہنگامہ ہوا گرم یہ ناری جو ہوا سرد
واں فوج نے لی باگ بڑھا یاں یہ جواں مرد
ٹاپوں کی صدا سے سر قاروں میں ہوا درد
رنگ رخ اعدا کی طرح اڑنے لگی گرد
قاروں کا زر گنج نہانی نکل آیا
یہ خاک اڑی رن سے کہ پانی نکل آیا
جو زندہ تھے العظمۃ للٰلہ پکارے
سر مردوں کے نیزوں پہ جو تھے واہ پکارے
ڈرکر عمر سعد کو گمراہ پکارے
خوش ہو کے علمدار سوئے شاہ پکارے
یاں تو ہوا یا حضرت شپیر کا نعرہ
شپیر نے ہنس کر کیا تکبیر کا نعرہ
پردے کے قریب آ کے بہن شہ کی پکاری
دشمن پہ ہوئی فتح مبارک ہو میں واری
اب کہتی ہوں میں دیکھتی تھی جنگ یہ ساری
عباسؑ کی اک ضرب میں ٹھنڈا ہوا ناری
مرحب کو تو خیبر میں یداللہ نے مارا
ہم نام کو ابن اسد اللہ نے مارا
میداں میں علمدار کے جانے کے میں صدقے
اس فاقے میں تلوار لگانے کے میں صدقے
باہم علم و مشک اٹھانے کے میں صدقے
اس پیاس میں اک بوند نہ پانے کے میں صدقے
سقا بنا پیاسوں کا مروت کے تصدق
بے سر کیا شہ زوروں کو قوت کے تصدق
تم دونوں کا ہر وقت نگہبان خدا ہو
دیکھے جو بری آنکھ سے غارت ہو فنا ہو
دونوں کی بلا لے کے یہ ماں جائی فدا ہو
رو کر کہا حضرت نے بہن دیکھیے کیا ہو
منہ چاند سا مجھ کو جو دکھائیں تو میں جانوں
دریا سے سلامت جو پھر آئیں تو میں جانوں
زینبؑ سے بحسرت یہ بیاں کرتے تھے مولا
ناگاہ سکینہؑ نے سنا فتح کا مژدا
چلائی میں صدقے ترے اچھی مری فضا
جا جلد بلائیں مرے عمود کی تو لے آ
دکھ پیاس کا کہہ کر انہیں مدہوش نہ کرنا
پر یاد دلانا کہ فراموش نہ کرنا
لینے کو بلائیں گئی فضہ سوئے جنگاہ
عباسؑ نے آتے ہوئے دیکھا اسے ناگاہ
چلائے کہ پھر جا میں ہوا آنے سے آگاہ
کہہ دینا سکینہؑ سے ہمیں یاد ہے واللہ
دل پیاس سے بی بی کا ہوا جاتا ہے پانی
لے کر ترے بابا کا غلام آتا ہے پانی
دریا کو چلے ابر صفت ساتھ لیے برق
مرحب کے شریکوں کا جدا کرتے ہوئے فرق
سردار میں اور فوج میں باقی نہ رہا فرق
مرحب کی طرح سب چہ ہب ہب میں ہوئے غرق
تلوار کی اک موج نے طوفان اٹھایا
طوفان نے سر پر وہ بیابان اٹھایا
پانی ہوئی ہر موج زرہ فوج کے تن میں
ملبوس میں زندے تھے کہ مردے تھے کفن میں
خنجر کی زبانوں کو قلم کرکے دہن میں
اک تیغ سے تلواروں کو عاری کیا رن میں
حیدر کا اسد قلزم لشکر میں در آیا
امڈے ہوئے بادل کی طرح نہر پر آیا
دریا کے نگہبان بڑھے ہونے کو چو رنگ
پہنے ہوئے مچھلی کی طرح بر میں زرہ تنگ
کھینچے ہوئے موجوں کی طرح خنجر بے زنگ
سقے نے کہا پانی پہ جائز ہے کہاں جنگ
دریا کے نگہبان ہو پر غفلت دیں ہے
مانند حباب آنکھ میں بینائی نہیں ہے
مذہب ہے یہ کیسا کہ رہ شرع نہ جانی
مشرب ہے یہ کیسا کہ پلاتے نہیں پانی
بے شیر کا بچپن علی اکبرؑ کی جوانی
برباد کیے دیتی ہے اب تشنہ دہانی
لب خشک ہیں بچوں کی زباں پیاس سے شق ہے
دریا ہی سے تم پوچھ لو کس پیاسے کا حق ہے
پانی مجھے اک مشک ہے اس نہر سے درکار
بھر لینے دو مجھ کو نہ کرو حجت و تکرار
چلائے ستم گر ہے گزر نہر پہ دشوار
غازی نے کہا ہاں پہ ارادہ ہے تو ہشیار
لو سیل کو اور برق شرر بار کو روکو
رہوار کو روکو مری تلوار کو روکو
یہ کہہ کے کیا اسپ سبک تاز کو مہمیز
بجلی کی طرح کوند کے چمکا فرس تیز
اشرار کے سر پر ہوا نعلوں سے شرر ریز
سیلاب فنا تھا کہ وہ طوفان بلا خیز
جھپکی پلک اس رخش کو جب قہر میں دیکھا
پھر آنکھ کھلی جب تو رواں نہر میں دیکھا
دریا میں ہوا غل کہ وہ در نجف آیا
الیاسؑ و خضرؑ بولے ہمارا شرف آیا
عباسؑ شہنشاہ نجف کا خلف آیا
پا بوس کو موتی لیے دست صدف آیا
یاد آ گئی پیاسوں کی جو حیدرؑ کے خلف کو
دل خون ہوا دیکھ کے دریا کی طرف کو
سوکھے ہوئے مشکیزہ کا پھر کھولا دہانہ
بھرنے لگا خم ہو کے وہ سرتاج زمانہ
اعدا نے کیا دور سے تیروں کا نشانہ
اور چوم لیا روح یداللہ نے شانہ
فرمایا کہ کیا کیا مجھے خوش کرتے ہو بیٹا
پانی مری پوتی کے لیے بھرتے ہو بیٹا
کچھ فرق تری کوشش و ہمت میں نہیں ہے
پانی مگر اس پیاسی کی قسمت میں نہیں ہے
وقفہ مرے پیارے کی شہادت میں نہیں ہے
جو زخم میں لذت ہے جراحت میں نہیں ہے
اک خون کی نہر آنکھوں سے زہراؑ کے بہی ہے
رونے کو تری لاش پہ سر کھول رہی ہے
دریا سے جو نکلا اسداللہ کا جانی
تھا شور کہ وہ شیر لیے جاتا ہے پانی
پھر راہ میں حائل ہوئے سب ظلم کے بانی
سقائے سکینہؑ کی یہ کی مرتبہ دانی
قبریں نبیؐ و حیدرؑ و زبیراؑ کی ہلادیں
برچھوں کی جو نوکیں تھیں کلیجے سے ملا دیں
وہ کون سا تھا تیر جو دل پر نہ لگایا
مشکیزے کے پانی سے سوا خون بہایا
یہ نرغہ تھا جو شمر نے حیلے سے سنایا
عباسؑ بچو غول کمیں گاہ سے آیا
مڑ کر جو نظر کی خلف شیر خدا نے
شانوں کو تہہ تیغ کیا اہل جفا نے
لکھا ہے کہ ایک نخل رطب تھا سر میداں
ابن ورقہ زید لعیں اس میں تھا پنہاں
پہنچا جو وہاں سرو روان شہ مرداں
جو شانہ تھا مشک و علم و تیغ کے شایاں
وار اس پہ کیا زید نے شمشیر اجل سے
یہ پھولی پھلی شاخ کٹی تیغ کے پھل سے
مشک و علم و تیغ کو بائیں پہ سنبھالا
اور جلد چلا عاشق روئے شہ والا
پر ابن طفیل آگے بڑھاتان کے بھالا
برچھی کی انی سے تو کیا دل تہہ و بالا
اور تیغ کی ضربت سے جگر شاہ کا کاٹا
وہ ہاتھ بھی فرزند یداللہ کا کاٹا
سقے نے کئی بانہوں پہ مشکیزہ کو رکھ کر
مانند زباں منہ میں لیا تسمہ سراسر
ناگاہ کئی تیر لگے آگے برابر
اک مشک پہ اک آنکھ پہ اور ایک دہن پر
مشکیزے سے پانی بہا اور خوں بہا تن سے
عباسؑ گرے گھوڑے سے اور مشک دہن سے
گر کر لب زخمی سے علمدار پکارا
کہہ دو کوئی پیاسوں سے کہ سقا گیا مارا
سن لی یہ صدا شاہ شہیداں نے قضارا
زینبؑ سے کہا لو نہ رہا کوئی ہمارا
اصغرؑ کا گلا چھد گیا اکبرؑ کا جگر بھی
بازو بھی مرے ٹوٹ گئے اور کمر بھی
گویا کہ اسی وقت جلے خیمے ہمارے
ظالم نے طمانچے بھی مری بیٹی کو مارے
رسی میں مرے خورد و کلاں بندھ گئے سارے
عباسؑ کے غم میں ہوئے ہم گور کنارے
اعدا میں ہے غل مالک شمشیر کو مارا
یہ کیوں نہیں کہتے ہیں کہ شپیر کو مارا
زینبؑ نے کہا سچ ہے تمہیں مرگئے بھائی
سب کنبے کو عباسؑ فنا کر گئے بھائی
آفاق سے اب حمزہؑ حیدرؑ گئے بھائی
ہم مجلس حاکم میں کھلے سر گئے بھائی
میں جان چکی قید مصیبت میں پڑی ہوں
اب گھر میں نہیں بلوے میں سر ننگے کھڑی ہوں
ناگاہ صدا آئی کہ اے فاطمہؑ کے لال
جلد آؤ کہ لاشہ مرا اب ہوتا ہے پامال
زینبؑ نے کہا زندہ ہیں عباسؑ خوش اقبال
تم جاؤ میں یاں بہر شفا کھولتی ہوں بال
شہ بولے لب گور سکینہؑ کا چچا ہے
اس فوج کا مارا ہوا کوئی بھی بچا ہے
اکبرؑ کے سہارے سے چلے نہر پہ آقا
گہ ہوش تھا گہ غش کبھی سکتہ کبھی نوحا
لکھا ہے کہ ٹکڑے ہوئے یوں سقے کی اعضا
اک ہاتھ تو مقتل میں ملا اک لب دریا
زہراؑ کا پسر رن میں جو زیر شجر آیا
اک ہاتھ تڑپتا ہوا شہ کو نظر آیا
گر کر شہ والا نے یہ اکبر سے کہی بات
اے لال اٹھا لو مرے بازو کا ہے یہ ہاتھ
یہ ہاتھ رکھے سینہ پہ وہ وارث سادات
پہنچا جو سر لاشۂ عباسؑ خوش اوقات
ہیہات قلم تیغوں سے شانے نظر آئے
سر ننگے یداللہ سرہانے نظر آئے
بے ساختہ ماتھے پہ رکھا شاہ نے ماتھا
لب رکھ کے لبوں پر کہا وا حسرت و در وا
یہ تیر یہ آنکھ اور یہ نیزہ یہ کلیجا
وا قرۃ عینا مرے وا مہجۃ قلبا
کچھ منہ سے تو بولو مرے غمخوار برادر
عباسؑ ابوالفضل علمدار برادر
اس جاں شکنی میں جو سنا شیون مولا
تعظیم کی نیت میں کٹے شانوں کو ٹیکا
پھر پاؤں سمیٹے کہ نہ ہوں پائنتی آقا
شہ بولے نہ تکلیف کرو اے میرے شیدا
کی عرض میں پھیلائے ہوئے پاؤں پڑا ہوں
حضرت نے یہ فرمایا سرہانے میں کھڑا ہوں
یاں تھی یہ قیامت وہاں خیمہ میں یہ محشر
در پر تھیں نبی زادیاں سب کھولے ہوئے سر
تشویش تھی کیوں لاش کو لے آئے نہ سرور
عباسؑ کا فرزند سراسیمہ تھا باہر
تن رعشے میں خورشید درخشاں کی طرح تھا
دل ٹکڑے یتیموں کے گریباں کی طرح تھا
ضد کرتا تھا ماں سے مرے بابا کو بلا دو
میں نہر پہ جاتا ہوں مرا نیمچہ لادو
ماں کہتی تھی بابا کو سکینہؑ کے دعا دو
بابا بھی چچا کو کہو بابا کو بھلا دو
حیدرؑ سے نویں سال چھڑایا تھا قضا نے
واری ترے بابا کو بھی پالا تھا چچا نے
دریا پہ ابھی گھر گئے تھے باپ تمہارے
پیارے کے چچا جان انہیں لینے کو سدھارے
تو رہ یہیں اے میرے رنڈاپے کے سہارے
بابا کو چچا جاں لیے آتے ہیں پیارے
تھا عشق جو عباسؑ سے اس نیک خلف کو
بڑھ بڑھ کے نظر کرتا تھا دریا کی طرف کو
ناگاہ پھرا پیٹتا منہ کو وہ پریشاں
زینبؑ نے کہا خیر تو ہے میں ترے قرباں
چلایا کہ خادم کی یتیمی کا ہے ساماں
بھیا علی اکبر نے ابھی پھاڑا گریباں
بن باپ کا بچپن میں ہمیں کر گئے بابا
مردے سے لپٹتے ہیں چچا مر گئے بابا
یہ غل تھا جو مولا لیے مشک و علم آلے
خیمہ میں کمر پکڑے امام امم آئے
اور گرد علم بال بکھیرے حرم آئے
زینبؑ سے کہا شہ نے بہن لٹ کے ہم آئے
بھائی کے یتیموں کی پرستار ہو زینبؑ
تم مہتمم سوگ علمدار ہو زینب
ہاں سوگ کا حیدرؑ کے سیہ فرش بچھاؤ
ہیں رخت عزا جس میں وہ صندوق منگاؤ
دو سب کو سیہ جوڑے عزادار بناؤ
شپر کی عزا کا ہمیں ملبوس پنہاؤ
تم پہنو وہ کالی کفنی آل عبا میں
جو فاطمہؑ نے پہنی تھی نانا کی عزا میں
عباسؑ کا یہ سوگ نہیں سوگ ہے میرا
عباسؑ کا ماتم ہو مرے گھر میں جو برپا
نوحے میں نہ عباسؑ کہے نہ کہے سقا
جو بین کرے رو کے کہے ہائے حسیناؑ
سب لونڈیاں یوں روئیں کہ آقا گیا مارا
چلائے سیکنہؑ بھی کہ بابا گیا مارا
زینب نے کہا ہیں میری قسمت کے یہی کام
دینے لگی ماتم کے یہ جوڑے تو وہ ناکام
فضہ سے کہا سوگ کا کرتی ہوں سر انجام
ٹھنڈا ہوا ہے ہے علم لشکر اسلام
زہراؑ کا لباس اپنے لیے چھانٹ رہی ہوں
عباسؑ کا ملبوس عزا بانٹ رہی ہوں
پھر زیر علم فرش سیہ لا کے بچھایا
اور بیوۂ عباسؑ کو خود لا کے بٹھایا
تھے جتنے سیہ پوش انہیں رو کے سنایا
قسمت نے جواں بھائی کا بھی داغ دکھایا
ناسور نہ کس طرح سے ہو دل میں جگر میں
ماتم ہے علمدار کا سردار کے گھر میں
باقی کوئی دستور عزا رہنے نہ پائے
اب خیمہ میں اپنے ہر اک اس خیمہ سے جائے
ایک ایک یہاں پُرسے کو عباسؑ کے آئے
سر ننگے لب فرش سے زینبؑ اسے لائے
یہ جعفر و حمزہ کا یہ حیدرؑ کا ہے ماتم
شپیر کا اکبرؑ کا اور اصغر کا ہے ماتم
سب خیموں میں اپنے گئیں کرتی ہوئی زاری
یاں کرنے لگی بین ید اللہ کی پیاری
فضہ نے کہا زینب مضطر سے میں واری
اے بنت علیؑ آتی ہے بانو کی سواری
منہ زیر علم ڈھانپے علمدار کی بی بی
پُرسے کے لیے آتی ہے سردار کی بی بی
بانو نے قدم پیچھے رکھا فرش سیہ پر
پہلے وہاں بٹھلا دیا اصغر کو کھلے سر
پھر سوئے علم پیٹتی دوڑی وہ یہ کہہ کر
قربان وفا پر تری اے بازوئے سرور
سنتی ہوں تہہ تیغ ستم ہو گئے بازو
دریا پہ بہشتی کے قلم ہو گئے بازو
عباسؑ کو تو میں نہ سمجھتی تھی برادر
میں ان کو پسر کہتی تھی اور وہ مجھے مادر
اس شیر کے مرجانے سے بیکس ہوئے سرور
بے جان ہوا حافظ جان علی اکبر
سب کہتے ہیں حضرت کا برادر گیا مارا
پوچھو جو مرے دل سے تو اکبرؑ گیا مارا
اتنے میں سنی بالی سیکنہؑ کی دہائی
زینب نے کہا روح علمدار کی آئی
جوڑے ہوئے ہاتھوں کو وہ شپیر کی جائی
کہتی تھی سزا پانی کے منگوانے کی پائی
تعذیر دو یا دختر شپیر کو بخشو
کس طرح کہوں میں مری تقصیر کو بخشو
میں نے تمہیں بیوہ کیا رنڈ سالہ پنہایا
ہے ہے مری اک پیاس نے سب گھر کو رلایا
کوثر پہ سدھارا اسد اللہ کا جایا
اور کنبے کا الزام مرے حصے میں آیا
انصاف کرو لوگوں یہ کیا کر گئے عمو
میں پیاسی کی پیاسی رہی اور مر گئے عمو
بعد اس کے ہوا شور کہ لو آتی ہے بیوہ
تشریف نئی بیوہ کے گھر لاتی ہے بیوہ
گھونگھٹ کو الٹتے ہوئے شرماتی ہے بیوہ
سر گوندھا ہوا ساس سے کھلواتی ہے بیوہ
زینبؑ نے کہا بیوۂ فرزند حسنؑ ہے
یہ کیوں نہیں کہتے مرے قاسمؑ کی دلہن ہے
کبراؑ کو چچی پاس جو زینبؑ نے بٹھایا
اس بیوہ نے گھونگھٹ رخ کبرؑیٰ سے ہٹایا
اور پوچھا کہ دولہا ترا کیوں ساتھ نہ آیا
افسوس چچی نے تجھے مہماں نہ بلایا
پرسے کو تو آئی خلف شیر خدا کے
پہلا ترا چالا یہ ہوا گھر میں چچا کے
ناگاہ فغاں زیر علم یہ ہوئی پیدا
سیدانیو دو مادر عباسؑ کو پرسا
تعظیم کو سب اٹھے کہ ہے نالۂ زہراؑ
زینبؑ نے کہا اماں وطن میں ہے وہ دکھیا
آئی یہ ندا پاس ہوں میں دور کہاں ہوں
عباسؑ مرا بیٹا میں عباسؑ کی ماں ہوں
رنڈ سالہ بہو کو میں پہنانے کو ہوں آئی
اک حُلۂ پر نور ہوں فردوس سے لائی
عباسؑ کے ماتم کی تو صف تم نے بچھائی
سامان سوئم ہوگا نہ کچھ اے مری جائی
تم روز سوئم ہائے رواں شام کو ہوگی
چہلم کو کفن لاش علمدار کو دوگی
لو حیدریو وارد مجلس ہوئیں زہراؑ
دو فاطمہؑ کی روح کو عباسؑ کا پرسا
اب تک نہیں کفنائے گئے ہیں شہ والا
بے گور ہے سردار و علمدار کا لاشا
رونے نہیں دیتے ہیں عدو آل نبی کو
تم سب کے عوض روؤ حسینؑ ابن علی کو
خاموش دبیرؔ اب کہ نہیں نظم کا یارا
مداح کا دل خنجر غم سے ہے دو پارا
کافی پئے بخشش یہ وسیلہ ہے ہمارا
اک ہفتے میں تصنیف کیا مرثیہ سارا
تجھ پر کرم خاص ہے یہ حق کے ولی کا
یہ فیض ہے سب مدح جگر بند علیؑ کا