جنگل کی شہزادی – جوش ملیح آبادی
پیوست ہے جو دل میں، وہ تیر کھینچتا ہوں
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا
اجمیر کی طرف سے جے پور جا رہا تھا
تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی
لیلیٰ ستار اپنا گویا بجا رہی تھی
خورشید چھپ رہا تھا رنگیں پہاڑیوں میں
طاؤس پر سمیٹے بیٹھے تھے جھاڑیوں میں
کچھ دُور پر تھا پانی، موجیں رکی ہوئی تھیں
تالاب کے کنارے شاخیں جھکی ہوئی تھیں
لہروں میں کوئی جیسے دل کو ڈبو رہا تھا
میں سو رہا ہوں، ایسا محسوس ہو رہا تھا
اک موجِ کیف پرور دل سے گزر رہی تھی
ہر چیز دلبری سے یوں رقص کر رہی تھی
تھیں رخصتی کرن سے سب وادیاں سنہری
ناگاہ چلتے چلتے جنگل میں ریل ٹھہری
کانٹوں پہ خوبصورت اک بانسری پڑی ہے
دیکھا کہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہے
زاہد فریب، گل رخ، کافر، دراز مژگاں
سیمیں بدن، پری رخ، نوخیز، حشر ساماں
خوش چشم، خوبصورت، خوش وضع، ماہ پیکر
نازک بدن، شکر لب، شیریں ادا، فسوں گر
کافر ادا، شگفتہ، گل پیرہن، سمن بُو
سروِ چمن، سہی قد، رنگیں جمال، خوش رو
گیسو کمند، مہ وش، کافور فام، قاتل
نظارہ سوز، دلکش، سرمست، شمعِ محفل
ابرو ہلال، مے گوں، جاں بخش، روح پرور
نسریں بدن، پری رخ، سیمیں عذار، دلبر
آہو نگاہ، نورس، گلگوں، بہشت سیما
یاقوت لب، صدف گوں، شیریں، بلند بالا
غارت گرِ تحمل، دل سوز، دشمنِ جاں
پروردۂ مناظر، دوشیزۂ بیاباں
گلشن فروغ، کمسن، مخمور، ماہ پارا
“دلبر کہ در کفِ اُو موم است سنگِ خارا”
ہر بات ایک افسوں ہر سانس ایک جادو
قدسی فریب مژگاں، یزداں شکار گیسو
صحرا کی زیب و زینت، فطرت کی نورِ دیدہ
برسات کے ملائم تاروں کی آفریدہ
چہرے پہ رنگِ تمکیں، آنکھوں میں بے قراری
ایمائے سینہ کوبی، فرمانِ بادہ خواری
لوہا تپانے والی جلووں کی ضوفشانی
سکّے بٹھانی والی اٹھتی ہوئی جوانی
ڈوبے ہوئے سب اعضا حُسنِ مناسبت میں
پالی ہوئی گلوں کے آغوشِ تربیت میں
حُسنِ ازل ہے غلطاں شاداب پنکھڑی میں
یا جان پڑ گئی ہے جنگل کی تازگی میں
حوریں ہزار دل سے قربان ہو گئی ہیں
رنگینیاں سمٹ کر ‘انسان’ ہو گئی ہیں
چینِ ستمگری سے ناآشنا جبیں ہے
میں کون ہوں؟ یہ اُس کو معلوم ہی نہیں ہے
ہر چیز پر نگاہیں حیرت سے ڈالتی ہے
رہ رہ کے اڑنے والی چادر سنبھالتی ہے
آنچل سنبھالنے میں یوں بل سے کھا رہی ہے
گویا ٹھہر ٹھہر کر انگڑائی آ رہی ہے
کچھ دیر تک تو میں نے اُس کو بغور دیکھا
غش کھا رہی تھی عقبیٰ، چکرا رہی تھی دنیا
گاڑی سے پھر اتر کر اُس کے قریب آیا
طوفانِ بے خودی میں پھر یہ زباں سے نکلا
اے درسِ آدمیّت، اے شاعری کی جنت
اے صانعِ ازل کی نازک ترین صنعت
اے روحِ صنفِ نازک، اے شمعِ بزمِ عالم
اے صبحِ روئے خنداں، اے شامِ زلفِ برہم
اے تُو کہ تیری نازک ہستی میں کام آئی
قدرت کی انتہائی تخئیلِ دلربائی
بستی میں تُو جو آئے، اک حشر سا بپا ہو
آبادیوں میں ہلچل، شہروں میں غلغلہ ہو
رندانِ بادہ کش کے ہاتوں سے جام چھوٹیں
تسبیحِ شیخ الجھے، توبہ کے عزم ٹوٹیں
نظروں سے اتِّقا کے رسم و رواج اتریں
زہّاد کے عمامے، شاہوں کے تاج اتریں
آنکھیں ہوں اشک افشاں، نالے شرر فشاں ہوں
کیا کیا نہ شاعروں کے ملبوس دھجیاں ہوں
شہروں کے مہ وشوں پر اک آسمان ٹوٹے
پروردۂ تمدن عشووں کی نبض چھوٹے
اس سادگی کے آگے نکلیں دلوں سے آہیں
جھک جائیں دلبروں کی خود ساختہ نگاہیں
تیری ادا کے آگے شرما کے منہ چھپائیں
ناپے ہوئے کرشمے، تولی ہوئی ادائیں
تیری نظر کی رَو سے ہو جائیں خستہ و گم
مشق و مزاولت کے پالے ہوئے تبسم
امن و اماں کے رخ کو بے آب و رنگ کر دے
دنیا کو حسن تیرا میدانِ جنگ کر دے
کتنی ہی قسمتوں کے بدلے فلک نوشتے
خوں اور دوستی کے کٹ جائیں کتنے رشتے
تصنیف ہوں ہزاروں چبھتے ہوئے فسانے
اِن انکھڑیوں کی زد پر کانپیں شراب خانے
تیرے پجاریوں میں میرا بھی نام ہوتا
اے کاش جنگلوں میں میرا قیام ہوتا
یہ بَن، یہ گل، یہ چشمے، مجھ سے قریب ہوتے
شاعر کے زیرِ فرماں یہ سب رقیب ہوتے
کیوں، میری گفتگو سے حیرت فروش کیوں ہے؟
اے زمزموں کی دیوی اتنی خموش کیوں ہے؟
بجنے لگیں وفا کی محفل میں شادیانے
ہاں دے لبوں کو جنبش، اے سرمدی ترانے
یوں چپ ہے، مجھ سے گویا کچھ کام ہی نہیں ہے
یہ وہ ادا ہے جس کا کچھ نام ہی نہیں ہے
سننا تھا یہ کہ ظالم اِس طرح مسکرائی
فریاد کی نظر نے، ارماں نے دی دُہائی
عشوہ، جبیں پہ لے کر دل کی امنگ آیا
چہرے پہ خون دوڑا، آنکھوں میں رنگ آیا
شرما کے آنکھ اٹھائی، زلفوں پہ ہات پھیرا
اتنے میں رفتہ رفتہ چھانے لگا اندھیرا
چمکا دیا حیا نے ہر نقشِ دلبری کو
دانتوں میں یوں دبایا چاندی کی آرسی کو
سُن کر مری مچلتی آنکھوں کی داستانیں
اُس کی نگاہ میں بھی غلطاں ہوئی زبانیں
شرما کے پھر دوبارہ زلفوں پہ ہات پھیرا
دیکھا تو چھا چکا تھا میدان پر اندھیرا
کچھ جسم کو چُرایا، کچھ سانس کو سنبھالا
کاندھے پہ نرم آنچل انگڑائی لے کے ڈالا
تاریک کر کے، میری آنکھوں میں اک زمانہ
جنگل سے سر جھکا کر ہونے لگی روانہ
ہونے لگی روانہ، ارماں نے سر جھکایا
دل کی مثال کانپا رہ رہ کے بن کا سایا
بے ہوش ہو چلا میں، سینے سے آہ نکلی
اتنے میں رات لے کر قندیلِ ماہ نکلی
مڑ کر جو میں نے دیکھا، امید مر چکی تھی
پٹری چمک رہی تھی، گاڑی گزر چکی تھی