غزل

حیدر علی آتش – حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے

Loading

حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے

پیش روزن پس دیوار لیے پھرتی ہے

اس مشقت سے اسے خاک نہ ہوگا حاصل

جان عبث جسم کی بیکار لیے پھرتی ہے

دیکھنے دیتی نہیں اس کو مجھے بے ہوشی

ساتھ کیا اپنے یہ دیوار لیے پھرتی ہے

کسی فاسق کے تو منہ کو نہ کرے گی کالا

کیوں سیاہی یہ شب تار لیے پھرتی ہے

تو نکلتا نہیں شمشیر بکف اے قاتل

موت میرے لیے تلوار لیے پھرتی ہے

مال مفلس مجھے سمجھا ہے جنوں نے شاید

وحشت دل سر بازار لیے پھرتی ہے

کعبہ و دیر میں وہ خانہ برانداز کہاں

گردش کافر و دیں دار لیے پھرتی ہے

رنج لکھا ہے نصیبوں میں مرے راحت سے

خواب میں بھی ہوس یار لیے پھرتی ہے

چال میں اس کی سراپا ہے کسی کی تقلید

کبک کو یار کی رفتار لیے پھرتی ہے

در یار آئے ٹھکانے لگے مٹی میری

دوش پر اپنے صبا بار لیے پھرتی ہے

ہنستے ہیں دیکھ کے مجنوں کو گل صحرائی

پا برہنہ طلب خار لیے پھرتی ہے

سایہ سا حسن کے ہمراہ ہے عشق بے باک

ساتھ یہ جنس خریدار لیے پھرتی ہے

کسی صورت سے نہیں جاں کو فرار اے آتشؔ

تپش دل مجھے لاچار لیے پھرتی ہے

Our Visitor

0 1 3 9 6 0
Users Today : 5
Users Yesterday : 23
Users Last 7 days : 142
Users Last 30 days : 694
Users This Month : 83
Users This Year : 2651
Total Users : 13960
Views Today : 6
Views Yesterday : 55
Views Last 7 days : 375
Views Last 30 days : 2087
Views This Month : 181
Views This Year : 5412
Total views : 33036
Who's Online : 0
Your IP Address : 216.73.216.213
Server Time : 2025-06-06
error: Content is protected !!