حیدر علی آتش – حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے
حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے
پیش روزن پس دیوار لیے پھرتی ہے
اس مشقت سے اسے خاک نہ ہوگا حاصل
جان عبث جسم کی بیکار لیے پھرتی ہے
دیکھنے دیتی نہیں اس کو مجھے بے ہوشی
ساتھ کیا اپنے یہ دیوار لیے پھرتی ہے
کسی فاسق کے تو منہ کو نہ کرے گی کالا
کیوں سیاہی یہ شب تار لیے پھرتی ہے
تو نکلتا نہیں شمشیر بکف اے قاتل
موت میرے لیے تلوار لیے پھرتی ہے
مال مفلس مجھے سمجھا ہے جنوں نے شاید
وحشت دل سر بازار لیے پھرتی ہے
کعبہ و دیر میں وہ خانہ برانداز کہاں
گردش کافر و دیں دار لیے پھرتی ہے
رنج لکھا ہے نصیبوں میں مرے راحت سے
خواب میں بھی ہوس یار لیے پھرتی ہے
چال میں اس کی سراپا ہے کسی کی تقلید
کبک کو یار کی رفتار لیے پھرتی ہے
در یار آئے ٹھکانے لگے مٹی میری
دوش پر اپنے صبا بار لیے پھرتی ہے
ہنستے ہیں دیکھ کے مجنوں کو گل صحرائی
پا برہنہ طلب خار لیے پھرتی ہے
سایہ سا حسن کے ہمراہ ہے عشق بے باک
ساتھ یہ جنس خریدار لیے پھرتی ہے
کسی صورت سے نہیں جاں کو فرار اے آتشؔ
تپش دل مجھے لاچار لیے پھرتی ہے