غزل گوئی

غزل کا تعارف

Loading

غزل کا تعارف

اردو شاعری میں غزل کی خاص اہمیت ہے۔ غزل کی مقبولیت کا بڑا سبب اس کا اعجاز و اختصار، اشاراتی اسلوب اور غنائیت ہے۔ غزل میں گونا گوں انسانی جذبوں اور قلبی واردات کو کم سے کم لفظوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ غزل کی شاعری بنیادی طور پر عشقیہ اور غنائی ہوتی ہے تاہم یہ صنف عشقیہ موضوعات کی پابند نہیں رہی۔ انسانی جذبوں اور تجربوں کی جیسی رنگا رنگی ہمیں اس صنف میں دکھائی دیتی ہے کسی اور صنف میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ غزل کی مقبولیت کا بہت بڑا سبب مضامین و موضوعات کی یہی رنگانگی ہے۔ عام طور پر غزل میں کسی مخصوص موضوع کی پابندی نہیں کی جاتی۔ غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے۔ غزل کی ایک مخصوص ہیئت ہوتی ہے۔ اس میں مطلع ،حسن مطلع، قافیہ اور ردیف وغیرہ کی خاص اہمیت ہے۔ غزل کا پہلا شعر مطلع ہوتا ہے جس کے دونوں مصروں میں قافیہ کی پابندی ضروری ہے مثلا میر تقی میر کی غزل کا مطلع ہے

 دیکھ تو دل کی جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

اس شعر کے پہلے مصرے میں لفظ جاں شعری اصطلاح میں قافیہ ہے جس کی صوتی مناسبت سے دوسرے مصرعے میں کہاں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مطلع کے بعد ہر شعر کے دوسرے مصرعوں میں قافیہ کی پابندی کی جاتی ہے۔ اسی طرح غزل کے تمام اشعار ہم قافیہ ہوتے ہیں جیسے میر تقی میر کی اسی غزل کا ایک اور شعر ہے

 یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

اس شعر میں جہاں کا لفظ قافیہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جو اپنے آہنگ کے لحاظ سے جاں اور کہاں سے مماثلت رکھتا ہے۔ اب مطلع پر دوبارہ غور کریں۔

دیکھ تو دل کی جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

اس شعر میں جاں اور کہاں الفاظ بطور قافیہ استعمال ہوئے ہیں ان کے بعد دونوں مصروں کے اخر میں ’سے اٹھتا ہے‘ کہ تکرار ہے۔ شعر کی اصطلاح میں اسے ردیف کہتے ہیں یعنی قافیہ کے بعد ایک لفظ یا لفظوں کا مجموعہ جسے ہر شعر کے دوسرے مصرے میں قافیہ کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ میر کے اس مطلع میں ’سے اٹھتا ہے‘ تین الفاظ پر مشتمل ردیف ہے ایک لفظ کی ردیف کی مثال درج ذیل ہے

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے اخر کام تمام کیا

شعر میں صوتی مناسبت سے کام اور تمام قافیہ ہیں، ’کیا‘ جو صرف ایک لفظ ہے ردیف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ کچھ غزلیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں ردیف نہیں ہوتی انہیں غیر مردف کہتے ہیں جیسے غالب کی غزل

نے گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز

میں ہوں اپنی شکست کی آواز

اس شعر میں ساز اور آواز قافیے ہیں لیکن کوئی ردیف نہیں ہے۔ غزل کی ہیئت میں قافیہ اور ردیف کی بنیادی اہمیت ہے۔ یہ دونوں چیزیں غزل میں خوش آہنگی پیدا کرتی ہیں۔ ردیف کی پابندی سے شعر کی مجموعی غنائیت دوبالا ہو جاتی ہے۔ مطلع کے بعد آنے والے شعر کو حسن مطلع کہتے ہیں۔ مطلع کے بعد اگر ایک اور ایسا شعر کہا جائے جس کے دونوں مصرے ہم قافیہ یا ہم ردیف ہوں تو ایسے مطلع کو مطلع ثانی کہتے ہیں اگر تیسرا مطلع بھی کہا جائے تو اسے مطلع ثالث کہتے ہیں۔ غزل میں اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہے۔ بیشتر اساتذہ نے کم سے کم پانچ اشعار کی پابندی کی ہے اگر اسی زمین میں دوسری اور تیسری غزل بھی کہی جائے تو اسے دو غزلہ یا سہ غزلہ کہتے ہیں جس کے آخری شعر یا مقطع میں شاعر ایک غزل کو دوسری غزل سے جوڑنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ غزل کا اخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں مقطع کی ایک مثال ملاحظہ ہو

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

غزل کی ایک مخصوص تہذیب اور روایت رہی ہے اس میں حسن و عشق تصوف اور رندی و سرمستی کے ماضامین بیان کیے جاتے ہیں۔ تاہم شعرا نے اپنی غزلوں کو انھیں مضامین تک محدود نہیں رکھا ہے۔ اس میں زندگی کے ہر مضمون کو موضوع بنایا گیا ہے۔ غزل کا کا گلدستہ انھیں رنگا رنگ مضامین سے مل کر تیا رہوتا ہے۔ غزل کی مقبولیت میں اس کی ہیئت کے ساتھ مضامین کے تنوع کا بھی بڑا دخل ہے۔

(ماخوذ: اردو کی ادبی اصناف، این سی ای آرٹی)

Our Visitor

0 0 9 8 7 8
Users Today : 0
Users Yesterday : 10
Users Last 7 days : 93
Users Last 30 days : 425
Users This Month : 0
Users This Year : 4624
Total Users : 9878
Views Today :
Views Yesterday : 21
Views Last 7 days : 208
Views Last 30 days : 782
Views This Month :
Views This Year : 8660
Total views : 24665
Who's Online : 0
Your IP Address : 18.118.10.18
Server Time : 2024-11-01