چاند تاروں کا بن – مخدوم محی الدین
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن
تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سرشار تھے
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے
منتظر مرد و زن
مستیاں ختم، مد ہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا بانکپن
رات کے جگمگاتے دہکتے بدن
صبح دم ایک دیوار غم بن گئے
خار زار الم بن گئے
رات کی شہ رگوں کا اچھلتا لہو
جوئے خوں بن گیا
کچھ امامان صد مکر و فن
ان کی سانسوں میں افعی کی پھنکار تھی
ان کے سینے میں نفرت کا کالا دھواں
اک کمیں گاہ سے
پھینک کر اپنی نوک زباں
خون نور سحر پی گئے
رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے
صبح کا کچھ اجالا بھی ہے
ہمدمو!
ہاتھ میں ہاتھ دو
سوئے منزل چلو
منزلیں پیار کی
منزلیں دار کی
کوئے دل دار کی منزلیں
دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو