ساون میں دیا پھر مہہ شوال دکھائی – ذوق
ساون میں دیا پھر مہہ شوال ، دکھائی
برسات میں عید آئی ، قدح کش خوار کی بن آئی
کرتا ہے ہلال ابروئے ، پُر خم سے اشارہ
ساقی کو کہ گھر بادے سے ، کشتی طلائی
ہے عکس فگن جام بلوریں سے ، مئے سرخ
کس رنگ سے ہوں ، ہاتھ نہ مے کش کے حنائی
کوندے ہے جو بجلی تو یہ سوجھے ہے نشے
ساقی نے ہے ، آتش سے ، مئے تیز اڑائی
یہ جوش ہے باراں کا کہ افلاک کے نیچے
ہووے نہ ممیز کره ناری و مائی
پہنچا ، کمک لشکر باراں سے ہے۔ل ، یہ روز
ہر نالے کی ہے دشت میں دریا ، پہ چڑھائی
ہو قلزم عماں پہ لب جو متبسم
تالاب سمندر کو کرے چشم نمائی
ہے کثرت باراں سے ہوئی عام یہ سردی
کافور کی تاثیر گئی جو زمیں پائی
سردیِ حنا پہنچے ہے ، عاشق کے جگر تک
معشوق کا گر ہاتھ میں ، ہے دست حنائی
عالم یہ ہوا ہوا کا ہے کہ تاثیر ہوا سے
گردوں پہ ہے ، خورشید کا بھی ، دیدہ ہوائی
کیا صرف ہوا ہے ، طرب و عیش سے ، عالم
ہے مدرسے میں بھی ، سبق صرف ہوائی
خالی نہیں مئے سے روشِ دانۂ انگور
زاہد کا بھی ہر دانۂ تسبیح ریائی
کرتی ہے صبا آکے کبھی مشک فشانی
کرتی ہے نسیم آکے کبھی ، لخلخہ سائی
تھا سوزئی خار کا صحرا میں جہاں فرش
سبزے نے وہاں مخمل خوش رنگ بچھائی
آتش گل کے لیے ، ہے جامۂ رنگیں
زیبائش غنچہ کے لیے ، تنگ قبائی
ہے نرگس شہلا نے دیا ، آنکھ میں کاجل
برگ گل سوسن نے دھڑی ، لب پہ جمائی
ابرو پہ کرے ، قوس قزح و سمہ تو خورشید
سرخیِ شفق سے ، کرے ریش اپنی حنائی
رخسار گل چیں کا ہے سرخی سے یہ عالم
جوں وقتِ غضب چہرۂ ترکانِ خطائی
کیا ساغرِ رنگیں کو کیا ، جلد ، مہیا
نرگس نے تو سرسوں ہی ہتھیلی پہ جمائی
ہوتی متحمل نہیں ، اک ساغر ، گل کی
شاخِ گل احمر کی نزاکت سے کلائی
اعجاز نوا سنجی مطرب سے ، چمن میں
ہر خار کے ہے نوک زباں شعر نوائی
حیرت کی نہیں جائے کہ ، دیوار چمن پر
ہر طائر تصویر کرے نغمہ سرائی
شاہا! ترے جلوے سے ہے یہ عید کی رونق
عالم نے ، تجھے دیکھ کے ، ہے عید منائی
پر تو سے ترے جام ، مئے عیش ، سر بزم
لے ساغرِ جمشید ، کرے کار روائی
ٹپکے لبِ ساغر وہ قطره کروی شکل
ہو مثل فلک جس میں تماشائے خدائی
کیا علم سمائے ترا ، سینے میں فلک کے
دریا کی کہاں ہوسکے کاسے میں سائی
پڑھتا ہوں ترے سامنے وہ مطلع موزوں
احسنت ، کہیں سن کے بہَائی و سَنائی
یوں کرسی زر پر ، ہے تری جلوہ نمائی
جس طرح سے مصحف ہو سر رحل طلائی
رکھتا ہے تو وہ دست سخا ، سامنے جس کے
ہے بحر بھی کشتی بہ کف از بہر گدائی
گمرہ کو ، ہدایت جو تری ، راہ پر لاوے
رہزن بھی اگر ہو تو کرے راہ نمائی
تا ناخن شمشیر نہ ہو ، ناخن تدبیر
دشمن کی ترے ہو نہ کبھی عقدہ کشائی
خورشید سے ، افزوں ہو ، نشاں سجدے کا روشن
گر چرخ کرے ، در کی ترے ، ناصیہ سائی
عکس رخ روشن سے ترے جوں یدِ بیضا
کرتا ہے کف آئینہ ، اعجاز نمائی
کرتا ہے تری نذر سدا نقدِ سعادت
ہے مشتری چرخ کی کیا نیک کمائی
ہر کوہ اگر ، کوہِ صفا ، ہو تو عجب کیا
ہو فیض رساں ، جب ترے ، باطن کی صفائی
ہو بلکہ صفا ایسی ، دل سنگ ، صنم میں
ہر بت میں کرے صورتِ جلوہ نمائی
ہر شعر غزل میں تیرے معنی شفا ہیں
قربان غزل کے تری دیوان شفائی
مانع جو ہوا دست ددرازی ،کو ترا عدل
پروانے کو بھی شمع نے ، انگلی نہ لگائی
زنجیر میں جوہر کی ، رہی تیغ ہمیشہ
خوں ریز کو ہو ، عہد میں تیرے ، نہ رہائی
دیتا ہے دعا ذوق کہ مضمون ثنا میں
ہے ذہن رسا کو ، یہ کہاں اس کے رسائی
ہر سال شہا ہووے مبارک یہ تجھے عید
تو مسند شاہی پہ کرے جلوہ نمائی